سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ وضع حمل سے عدت ختم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ کی خلقت واضح ہوگئی ہو، یا کوئی عضو مثلاً ہاتھ، پیر وغیرہ بن گیا ہو، یا حمل میں جان پڑ گئی ہو، ڈیڑھ دو ماہ کے حمل میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا، اس لئے صورت مسئولہ میں عدت کے گزرنے کے لئے اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ عورت کی عدت تین حیض ہوگی، اور عدت (تین حیض) کے گزرنے کی صورت یہ ہوگی کہ حمل ضائع ہونے کے بعد اگر کم ازکم تین دن تک خون آیا ہو، اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (پندرہ دن کا دورانیہ) بھی گزر چکا ہو، تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا، اس کے بعد مزید دو حیض اور گزارنے ہوں گے، اور اگر تین دن سے کم خون آیا، تو یہ خون حیض کا شمار نہیں ہوگا، بلکہ استحاضہ ہوگا، اس صورت میں عدت کی تکمیل کے لئے مستقل تین حیض گزارنے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما فی الفتاوی الهندیة:
والسقط إن ظہر بعض خلقہ من إصبع أوظفر أوشعر ولد فتصیر بہ نفساء، ہکذا في التبیین ، و إن لم یظہر شيء من خلقہ فلا نفاس لہا، فإن أمکن جعل المرئي حیضا یجعل حیضا وإلا فہو استحاضۃ۔
(ج1، ص91، ط۔ زکریا جدید)
وفي الدرالمختار مع الشامی:
اوسقط ظھر بعض خلقہ کید أو رجل أو إصبع أو ظفر أو شعر ولد حکما فتصیر بہ نفساء ۔۔۔
( وسقط) مثلث السین أی مسقوط (ظھر بعض خلقہ کید أورجل) أو اصبع أوظفر أو شعر ولا یستبین خلقہ الابعد مائۃ وعشرین یوما( ولد) حکما ( فتصیر) المرأۃ (بہ نفساء والامۃ ام ولد ویحنث بہ) فی تعلیقہ وتنقضی بہ العدۃ فان لم یظھرلہ شیٔ فلیس بشیٔ والمرئی حیض ان دام ثلا ثا وتقدمہ طھر تام والا استحاضۃ
وفیہ ایضا:
نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق۔
(ج1،ص501، مطلب في أحوال السقط واحکامہ ،ط: زکریا)․․
وفی البناية شرح الهداية:
السقط الذي استبان بعض خلقه]م: (والسقط) ش: بالحركات الثلاث في السين م: (الذي استبان) ش: أي ظهر م: (بعض خلقه ولد)۔۔۔قوله والسقط وبعض خلقه كالإصبع والشعر والظفر م: (حتى تصير المرأة به) ش: أي بالسقط م: (نفساء وتصير الأمة أم ولد به وكذا العدة تنقضي به) ۔۔۔۔۔۔۔۔ ونقصان الخلقة لا يمنع ثبوت أحكام الولد كما لو ولدت ولداً ليس له بعض أطرافه، فإن لم يظهر شيء من خلقه فلا نفاس لأن هذه علقة أو مضغة فلم يكن الدم الذي عنه نفاساً، ولكن إن أمكن جعله المرئي من الحيض وسمي الدم حيضاً بأن تقدمه طهر تام جعل حيضها إن كان ثلاثة أيام وإلا فهو استحاضة
(ج1، ص689)
کما فی الفتاویٰ دیوبند:
( 119-94/M=02/1441)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی