استخارہ کا طریقہ

سوال کا متن:

حضرت ! کوئی بھی کام کرنے سے پہلے دعاء استخارہ پڑھنا کیسا ہے؟

جواب کا متن:

استخارے کا مقصد اور حقیقت:
واضح رہے کہ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے، جس کا مقصود صرف یہ ہے کہ بندہ استخارہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر تا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اس کے اندر خیر ڈال دے اور جس کام میں میرے لئے خیر نہ ہو، اس سے مجھے دور فرما دیجئے، استخارہ کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں پتہ چل جائے کہ یہ کام ہمارے لئے خیر ہے یا شر۔
اور استخارہ میں اصل قلبی (دل کا) اطمينان ہے، اگر ایک دفعہ میں اطمینان نہ ہو تو سات دفعہ تک کیا جائے. ان شاء اللہ تعالیٰ رجحان اور اطمینان حاصل ہو جائے گا، اس سے زیادہ بھی جتنی بار چاہے، استخارہ کر سکتا ہے۔


استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ:
سنت کے مطابق استخارہ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو) دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں، نیت یہ کریں کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے، اس میں جو چیز میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے۔

استخارہ کی مسنون دعا:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․
(صحیح بخاری، باب ماجاء فی التطوع مثنی مثنی، رقم الحدیث 1162، ج1، ص280، دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

دعا کرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔

استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز دل میں ڈالی جائے، اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔
(مظاہر حق، استخارے کی نماز و دعا، الفصل الاول، ج1، ص717، دارالاشاعت، کراچی)

استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں:
استخارہ کس قدر آسان کام ہے، مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں :
کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر دائیں کروٹ پر قبلہ رو سونا ضروری ہے، ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا اور اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

کسی دوسرے سے استخارہ کروانا :
استخارہ خود کرنا ثابت ہے، کسی اور سے استخارہ کروانا ثابت نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی )
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے، جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔
اگرکسی اور سے استخارہ کروانا سنت یا کوئی مستحسن عمل ہوتا تو رسول اللہﷺ کی پوری زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین میں سے ضرور کسی ایک صحابہ نے رسول اللہﷺ سے استخارہ کروایا ہوتا۔

استخارہ کے خود ساختہ طریقے:
لوگوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود سے گھڑ لیے ہیں، جن کا مسنون طریقہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنے کا ہے، کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے ، وغیرہ وغیرہ، اس میں سے کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ ان طریقوں سے ہم رسول اللہ ﷺ کے واضح بتائے ہوئے سنت طریقہ کو چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کررہے ہیں۔

وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں استخارے کا ایک اور مسنون طریقہ:
سنت استخارے کا تفصیلی طریقہ تو وہ ہے، جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے اور وہ تین مختصر سی دعائیں ہیں:
اَللّٰھُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ․ (کنز العمال)
ترجمہ: اے اللہ ! میرے لئے آپ (صحیح راستہ) پسند کردیجئے اور میرے لئے آپ انتخاب فرما دیجئے۔

اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ․(صحیح مسلم)
ترجمہ:
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔

اَللّٰہُمَ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ۔ (ترمذی)
ترجمہ:
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے۔
ان دعاوں میں سے جو دعا یاد آجائے، اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کرلی جائے کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکیں تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دیں کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے، جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔

خلاصہ کلام:
اس پوری تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ" استخارہ" اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے اور سوال میں ذکرکردہ طریقہ سنت کے خلاف ہے، لہذا اس بات کی کوشش کی جائے کہ استخارہ کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے، جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، محض سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے حضرات علماء کرام سے رہنمائی حاصل کی جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کما فی الصحیح البخاری:

حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا ، كَالسُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ : إِذَا هَمَّ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي ، أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي ، وَآجِلِهِ ، فَاقْدُرْهُ لِي ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي ، أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي ، وَآجِلِهِ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ .

(رقم الحدیث:6382)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5173