ای ایف یو انشورنس (efu life insurance) کا شرعی حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، امید کرتا ہوں آپ سب خیریت سے ہونگے، آپ سے ایک سوال معلوم کرنا ہے کہ کیا EFU Life Insurance کرنا مسلمانوں کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ انشورنس (لائف انشورنس ہو، یا املاک و غیرہ کی انشورنس ہو) کے ذریعے انسان مستقبل میں پیش آنے والے امکانی خطرات سے حفاظت اور بعض نقصانات کی تلافی کی یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا ہے۔

مروجہ انشورنس میں کسٹمر ایک معینہ مدت تک ایک مقررہ رقم قسط وار انشورنس کمپنی کو ادا کرتا ہے، اگر اس مقررہ مدت کے درمیان اس کی جان و مال و املاک کو کوئی خطرہ لاحق ہو گیا، تو انشورنس کمپنی اس کو یا اس کے وارثین کو جمع شدہ رقم سے زائد رقم ادا کرتی ہے، یہ زائد رقم سود ہے، اور اگر اس مقررہ مدت میں کوئی خطرہ پیش نہ آیا، تو جمع شدہ رقم واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے، اور یہ رقم شرعی طور پر (قمار) جوئے میں شمار ہوتی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مروجہ انشورنس کمپنی کی بنیاد صرف سودی معاملات پر نہیں، بلکہ غرر (دھوکہ) اور قمار(جوا) پر بھی ہے۔ چونکہ سود اور قمار (جوا) شریعت میں حرام ہے، لہذا مروجہ انشورنس سود، دھوکہ اور جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

البتہ ای ایف یو کی کچھ پروڈکٹس شریعہ کمپلائنٹ (Shariah complaint) بھی ہیں، اگر ان پروڈکٹس پر مستند ماہر علماء کرام کی نگرانی میں شریعت کے اصولوں کے مطابق عمل ہو رہا ہو، اور آپ کو ان پر اعتماد بھی ہو، تو ان کی یہ پروڈکٹس لینے کی گنجائش ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

قال اللہ تعالیٰ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔
(سورۃ بقرہ: ۲۷۸ – ۲۷۹)

وایضاً قال:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(سورۃ المآئدۃ، الایہ۹۰)


لما فی الصحیح لمسلم:
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
(ج2، ص227)

کذا فی عمدۃ القاری:
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔
(ج۸، ص ۴۳۵)

کذا فی مصنف ابن ابی شیبہ:
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".
(ج4، ص483، کتاب البیوع والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

کذا فی الشامیہ:
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(ج6، ص403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط : سعید)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5252