جمعہ کی ادائیگی کے بعد معتکف جامع مسجد میں کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے؟

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کوئی شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لئے کسی ایسی مسجد میں بیٹھے کہ جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہو، تو اگر وہ جمعے کے دن جامع مسجد جمعہ ادا کرنے کے لیے جائے، تو اس کے لیے وہاں کتنی دیر پہلے تک جانا جائز ہے؟ اور وہاں کب تک ٹھہر سکتا ہے؟

جواب کا متن:

معتکف کی مسجد میں اگر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے، تو اس کو جامع مسجد اتنی دیر پہلے جانا چاہیے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں دورکعت نفل تحیۃالمسجد اور چار رکعت سنت اطمینان سے پڑھ لے، اس کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کر سکتا ہے، پھر جمعہ کے فرضوں کے بعد چھ رکعت سنتیں اور نفل پڑھ کر اپنی اعتکاف والی مسجد میں آ جانا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی الدر المختار:

وحرم علیہ ای علی المعتکف اعتکافا واجبا اما النفل فلہ الخروج۔۔۔۔۔۔ الخ
(الخروج الا لحاجۃ الانسان) طبعیۃ کبول وغائط وغسل لو احتلم ولا یمکنہ الاغتسال فی المسجد کذا فی النھر (او) شرعیۃ کعید و اذان لو مؤذنا وباب المنارۃخارج المسجد و (الجمعۃ وقت الزوال ومن بعد منزلہ)ای معتکفہ (خرج فی وقت یدرکہا) مع سنتہا یحکم فی ذٰلک رأیہ ویستن بعدہا أربعاً أو ستاً علی الخلاف ولو مکث أکثر لم یفسد لانہ محل لہ وکرہ تنزیہاً۔۔۔۔۔۔۔

(الدر المختار،444،445/2 باب الاعتکاف ط: سعید)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5034