شیطان کو انسانوں پر کتنا اختیار ہے؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب !قرآن میں سورۃ الکھف میں ہے کہ وما انسنیہ الا الشیطن". پوچھنا یہ ہے کہ شیطان کو کس کس امور میں اختیار دیا گیا ہے؟ کیا ھم بھی اپنی روز مرہ زندگی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیطان نے بھول کروادی، یا اس کو بھی منجانب اللہ سمجھا جائے؟

جواب کا متن:

شیطان کو انسانوں پر کتنا اختیار ہے؟ اس سلسلے میں قرآن وسنت کے مطالعہ سے جو بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ شیطان کو ایسا اختیار بالکل نہیں ہے کہ انسان اس کے سامنے مجبور و بے بس ہے، بلکہ اس کو اتنا اختیار ہے کہ وہ انسانوں کو برائی کی دعوت دے، طرح طرح کے برے وسوسے دل میں ڈالے، پھر انسان اپنے اختیار سے اس برائی کو سر انجام دیں، لہذا انسان سے آخرت میں جو باز پرس اور جزاو سزا ہوگی، وہ اس کے اسی اختیار کو استعمال کرنے پر ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن شیطان اپنے پیروکاروں سے صاف الفاظ میں کہے گا، جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح وارد ہوا ہے:

وَ قَالَ الشَّیۡطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمۡ وَعۡدَ الۡحَقِّ وَ وَعَدۡتُّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُکُمۡ ؕ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُکُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِیۡ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِیۡ وَ لُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِیَّ ؕ اِنِّیۡ کَفَرۡتُ بِمَاۤ اَشۡرَکۡتُمُوۡنِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۲۲﴾

(سورۃ ابراھیم، آیت نمبر: 22)

ترجمہ:

اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان (اپنے ماننے والوں سے) کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی۔ اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی۔ لہذا اب مجھے ملامت نہ کرو۔ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ تمہاری فریاد پر میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں، اور نہ میری فریاد پر تم میری مدد کرسکتے ہو۔ تم نے اس سے پہلے مجھے اللہ کا جو شریک مان لیا تھا، ( آج) میں نے اس کا انکار کردیا ہے۔ جن لوگوں نے یہ ظلم کیا تھا، ان کے حصے میں تو اب دردناک عذاب ہے۔


مذکورہ بالا آیات سے واضح ہو گیا کہ شیطان نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری کر لیا کہ میں نے تو تمہیں صرف دعوت دی تھی، باقی کام تو تم نے خود سر انجام دیئے، البتہ اس کے وسوسوں کا زیادہ اثر ان لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے، جو شیطان کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔
جو لوگ ایمان والے ہیں اور اللّٰہ تعالٰی پر توکل کرتے ہیں، ہر وقت اللہ کی پناہ مانگتے ہیں شیطان مردود سے، تو ان پر شیطان کی دعوت کا زور نہیں چلتا، ذیل کی آیات میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے:

فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ﴿۹۸﴾اِنَّہٗ لَیۡسَ لَہٗ سُلۡطٰنٌ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿۹۹﴾ اِنَّمَا سُلۡطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَوَلَّوۡنَہٗ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِہٖ مُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

(سورۃ النحل آیت نمبر ٩٨-١٠٠)

ترجمہ:

چنانچہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔
اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
اس کا بس تو ان لوگوں پر چلتا ہے، جو اسے دوست بناتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔

تفسیر:

شیطان سے پناہ مانگنا صرف تلاوت ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، ہر نیک کام کے وقت پناہ مانگ لی جائے، تو ان شاء اللہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہے گی۔

( آسان ترجمہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم)

حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تفسیر "معارف القرآن" میں ان آیات کے ذیل میں تحریر فرمایا:

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ تفسیر میں فرمایا کہ انسان کے دشمن دو قسم کے ہیں، ایک خود نوع انسانی میں سے ہے جو نظر آتا ہے، جیسے کفار اور دوسرے جنات میں سے جو نظر نہیں آتا، یعنی شیطان ونافرمان، پہلی قسم کے دشمن کے ساتھ اسلام نے جہاد و قتال کے ذریعے مدافعت کا حکم دیا ہے، مگر دوسری قسم سے بچنے کے لیے صرف اللہ کی پناہ لینا واجب قرار دیا گیا ہے۔

اس آیت میں یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالی نے شیطان کو ایسی قوت نہیں دی کہ وہ کسی بھی انسان کو برائی پر مجبور و بے اختیار کردے، انسان خود اپنے اختیار وقدرت کو غفلت یا کسی غرض نفسانی سے استعمال نہ کرے، تو یہ اس کا قصور ہے، اسی لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے احوال واعمال میں اپنی قوت ارادی کے بجائے اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہی ہر خیر کی توفیق دینے والا اور ہر شر سے بچانے والا ہے، ایسے لوگوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا، ہاں جو اپنے اغراض نفسانی کے سبب شیطان ہی سے دوستی کرتے ہیں، اسی کی باتوں کو پسند کرتے ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتے ہیں، ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے کہ کسی خیر کی طرف نہیں جانے دیتا اور ہر برائی میں وہ آگے آگے ہوتے ہیں۔

( ماخذہ باختصار از معارف القرآن: ٥/ ٣٩٩)

لیکن بھول چوک اور شیطانی وسوسہ کبھی کبھی اللّٰہ تعالٰی کے نیک بندوں کو بھی پیش آجاتا ہے، مگر یہ بھول ان کے لیے مضر نہیں ہوتی ہے، بلکہ مزید ترقی درجات کا سبب بن جاتی ہے۔

چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ:

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمۡ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۰۱﴾ۚ

(سورۃ الاعراف، آیت نمبر:201)

ترجمہ:

جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ہے، انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو وہ (اللہ کو) یاد کرلیتے ہیں۔ (١٠١) چنانچہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

تفسیر:

گناہ کی خواہش نفس اور شیطان کے اثرات سے بڑے بڑے پرہیزگاروں کو بھی ہوتی ہے، لیکن وہ اس کا علاج اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا دھیان کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، یعنی ان کو گناہ کی حقیقت نظر آجاتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ گناہ سے بچ جاتے ہیں، اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے۔

( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

سوال میں ذکر کیے گئے واقعہ میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفیق سفر حضرت یوشع بن نون کو جو بھول چوک ہوئی ہے، اس کی وجہ سے مزید سفر کی مشقت سے ترقی درجات ہوئی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا۔

(سورۃ الکہف، آیت نمبر: 63)

ترجمہ:

اس نے کہا : بھلا بتائیے ! (عجیب قصہ ہوگیا) جب ہم اس چٹان پر ٹھہرے تھے تو میں مچھلی ( کا آپ سے ذکر کرنا) بھول گیا اور شیطان کے سوا کوئی نہیں ہے، جس نے مجھ سے اس کا تذکرہ کرنا بھلا یا ہو، اور اس (مچھلی) نے تو بڑے عجیب طریقے پر دریا میں اپنی راہ لے لی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فی العلل الکبیر للترمذی:

428 حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ , وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ , وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ , فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ , وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ , ثُمَّ قَرَأَ { الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ } الْآيَةَ سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ : رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَأَوْقَفَهُ . وَأَرَى أَنَّهُ قَدْ رَفَعَهُ غَيْرُ أَبِي الْأَحْوَصِ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , وَهُوَ حَدِيثُ أَبِي الْأَحْوَصِ

(العلل الكبير للترمذي أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطُّهُورِ حديث رقم: ٤٢٨)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5030