اعتکاف ٹوٹنے پر قضا کا حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، حضرت! اگر کسی شخص کا اعتکاف ٹوٹ جائے تو اس کی قضا کا کیا حکم ہے۔ کیا پورے اعتکاف کی قضا کرنی پڑے گی یا جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے، صرف اسی دن کی قضا کر لینا کافی ہے؟ یہ بھی بتا دیں کہ کیا سنت اعتکاف اور نفلی اعتکاف اور واجب اعتکاف سب کا ایک حکم ہے یا الگ الگ ہے؟

جواب کا متن:

اگر کوئی شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھے اور اس کا اعتکاف کسی عذر کی وجہ سے ٹوٹ جائے، تو جس دن کا اعتکاف فاسد ہوا ہو، اسی روز کی قضا واجب ہوگی، پھر اگر رمضان کے کچھ ایام باقی ہوں، تو ان میں وہ قضا کی نیت کرکے ایک دن کا اعتکاف کر سکتا ہے، ورنہ جب موقع ہو، ایک نفلی روزہ رکھ کر اس ایک دن ایک رات کے اعتکاف کی قضا کرلے۔


نفل اعتکاف کی قضا واجب نہیں، کیونکہ نفل اعتکاف مسجد سے نکلنے سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ ختم ہو جاتا ہے اور اعتکاف ختم ہونے کی صورت میں قضا لازم نہیں ہوتی۔

نذر کا اعتکاف خواہ معین ہو یا معین نہ ہو، ٹوٹ جانے کی صورت میں نئے سرے سے تمام دنوں کی قضا روزے کے ساتھ لازم ہوگی، کیونکہ نذر کے اعتکاف میں تسلسل لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:


کذا فی رد المحتار:

(قولہ وحرم الخ) لأنہ ابطال للعبادۃ وھو حرام لقولہ تعالیٰ: ولا تبطلوا أعمالکم۔ بدائع (قولہ وامّا النفل) ای الشامل للسنۃ المؤکدۃ ح قلت قدمنا ما یفید اشتراط الصوم فیھا بناء علی انھا مقدّرۃ بالعشرا لاخیر ومفاد التقدیر ایضاً اللزوم بالشروع تامل ثم رأیت المحقق ابن الھمام قال: ومقتضی النظر لو شرع فی المسنون اعنی العشر الاوا خر بنیتہ ثم افسدہ ان یجب قضاؤہ تخریجاً علی قول ابی یوسف فی الشروع فی نفل الصلاۃ تناویا اربعا لاعلی قولھما اھـ ای یلزمہ قضاء العشر کلہ لو افسد بعضہ کما یلزمہ قضاء اربع لوشرع فی نفل ثم افسد الشفع الاوّل عند ابی یوسف، لکن صحح فی الخلاصۃ انہ لا یقضی لارکعتین کقولھما… فیظھر من بحث ابن الھمام لزوم الاعتکاف المسنون بالشروع وان لزوم قضاء جمیعہ او باقیہ مخرج علی قول ابی یوسف اما علی قول غیرہ فیقضی الیوم الذی افسدہ لاستقلال کل یوم بنفسہ۔

(الشامی، 444/2، ط سعید)

کذا فی الھندیۃ:

ھذا کلہ فی الاعتکاف الواجب اما فی النفل فلا بأس بان یخرج بعذر وغیرہ فی ظاھر الروایہ۔

(الھندیۃ، 214/1، ط رشیدیہ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4993