قربانی کی کھالیں کسی رفاہی تنظیم کو دینے کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! آج کل کھالوں کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے مدارس کے طلباء قربانی کی کھالیں وصول کرنے بہت کم آتے ہیں، تو اگر ہم ایسی صورت حال میں کسی تنظیم کو قربانی کی کھالیں دے دیں اور وہ اس کی قیمت اپنی ایڈورٹائزنگ میں لگادیں یا اس قیمت سے گلی وغیرہ بنوادیں، تو کیا اس سے ہماری قربانی پر اثر پڑے گا یا نہیں؟ اور کیا کسی تنظیم کو قربانی کی کھال دے سکتے ہیں؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ قربانی کے جانور کی کھال کو قربانی کرنے والا فروخت کئے بغیر خود بھی استعمال کرسکتا ہے٬ کسی کو بطور ہدیہ دے سکتا ہے٬ اور فقراء اور مساکین پر صدقہ بھی کیا جا سکتا ہے.

اگر کھال فروخت کر دی جائے، تو اس کی قیمت کا مصرف وہی ہے، جو زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا مصرف ہے، لہذا جس طرح زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کسی رفاہی کام مثلاً: تعمیر وغیرہ میں خرچ نہیں ہوتے، اسی طرح قربانی کی کھالوں کی قیمت بھی رفاہی کاموں میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا اگر کسی تنظیم کے بارے میں پورا اطمینان ہو کہ وہ کھال کو اس کے صحیح مصرف مثلاً: فقراء ومساکین پر خرچ کرنے کا اہتمام کرتی ہے، تو اسے کھال دینا جائز ہے اور جو تنظیم اس کھال کو بجائے فقراء ومساکین پر خرچ کرنے کے، اس کی قیمت رفاہی کاموں مثلاً: سڑک وغیرہ کی تعمیر میں خرچ کرتی ہے، تو اسے کھال دینا جائز نہیں ہے٬ تاہم اس سے قربانی فی نفسہ ادا ہو جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

قال اللّٰہ تعالیٰ:

{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ}
[التوبۃ، جزء آیت: 60]

وفی الفتاویٰ الھندیۃ:

"ولو باعہا بالدراہم لیتصدق بہا جاز؛ لأنہ قربۃ کالتصدق".

(الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الأضحیۃ / الباب السادس ۵؍۳۰۱)

وفی الموسوعۃ الفقیۃ:

"بیع شيء من لحمہا أو شحمہا أو صوفہا أو شعرہا أو وبرہا أو غیر ذٰلک، إذا کان البیع بدراہم أو دنانیر أو ماکولات أو نحو ذٰلک مما لا ینتفع بہ إلا باستہلاک عینہ، فہٰذا البیع لا یحل وہو مکروہ تحریمًا ،فإن باع نفذ البیع عند أبي حنیفۃ ومحمد، ووجب علیہ التصدق بثمنہ؛ لأن القربۃ ذہبت عنہ ببیعہ ولا ینفذ البیع عند أبي یوسف، فعلیہ أن یستردہ من المشتري؛ فإن لم یستطع وجب التصدق بثمنہ".

(الموسوعۃ الفقہیۃ ۵؍۱۰۴)


وفی شرح العینی للھدایۃ:

"فإذا تمولتہ بالبیع وجب التصدق؛ لأن ہٰذا الثمن حصل بفعل مکروہ فیکون خبثًا فیجب التصدق".

(عیني شرح الہدایۃ ۴؍۱۹۰)


وفی الدر المختار مع رد المحتار:

"ویشترط أن یکون الصرف تملیکًا لا إباحۃً کما مر لا یصرف إلی بناء نحو مسجد".

وفي الشامیۃ:

"کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار وکل ما لا تملیک لہ".

(رد المحتار: کتاب الزکاۃ / باب المصرف)

وفی الھدایۃ:

"ومن شرط الوکالۃ أن یکون المؤکل ممن یملک التصرف ویلزمہ الأحکام؛ لأن الوکیل یملک التصرف من جہۃ المؤکل، فلا بہ أن یکون المؤکل مالکًا لیملکہ من غیرہ".

(الہدایۃ / کتاب الوکالۃ ۳؍۱۷۹)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4980