والدین کے ساتھ مشترکہ فیملی سسٹم میں رہنے والی اولاد کی ملکیت کا حکم

سوال کا متن:

ہم کل پانچ بھائی اور ایک بہن پر مشتمل فیملی ممبرز ہیں، میرے والد اور دو بھائیوں نے مل کر مکان بنایا، جبکہ دیگر دو بھائی اس محنت میں ان کا ساتھ دیتے رہے، اس مکان میں چار بھائی اور بہن کچھ عرصہ ساتھ رہتے رہے، جبکہ پانچوے بھائی جو باہر ملک میں ہوتے ہیں، جب پاکستان آتے ہیں، تو اسی گھر میں رہائش رکھتے ہیں، کچھ عرصہ بعد دو بھائی اور بہن یہاں سے کہیں اور شفٹ ہوگئے، فی الحال ابھی اس مکان میں میں دو بھائی، والد اور والدہ رہتے ہیں۔ اب یہ گھر امی، ابو اور دیگر افراد کے حکمیہ مشورے سے ایک بھائی کے نام کردیا ہے۔ اس ساری تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے: (1) اس مکان کی وارثوں میں تقسیم کس طرح ہوگی؟ (2) جن دو بھائیوں نے مکان میں مال لگایا تھا، کیا وہ فیصدی حصہ کے علاوہ وراثت کے حقدار بھی ہونگے؟ یا صرف اتنی رقم کے حقدار ہونگے، جو انہوں نے اس وقت تعمیر میں لگائی تھی؟

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں جن دو بیٹوں نے والد صاحب کے ساتھ مل کر مکان بنایا ہے، اگر انہوں نے اپنی ذاتی کمائی ( یعنی والد صاحب کے ساتھ کاروبار وغیرہ میں شریک نہیں تھے) سے مکان میں پیسہ خرچ کیا ہے، تو اگر انہوں نے والد صاحب کے ساتھ تعاون کے لیے وہ پیسہ مکان میں بطور ہدیہ (گفٹ) لگایا ہے، تو وہ مکان والد صاحب کی ملکیت ہوگا اور اگر انہوں نے والد صاحب کو بطور قرض دیا ہے، تو انہیں ان کے قرض کی رقم ہی واپس لینے کا حق ہوگا، مکان والد صاحب کی ملکیت ہوگا۔
لیکن اگر انہوں نے پیسہ لگاتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی تھی،(نہ ہدیہ کی، نہ قرض کی اور نہ ہی شراکت کی)، تو ایسی صورت میں ان کے دیے ہوئے پیسے والد صاحب کے لیے ہدیہ (گفٹ) سمجھے جائیں گے۔

اور اگر وہ اپنے والد کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہوں، ان کا کھانا پینا ایک ساتھ ہو، اور ان کا ذریعہ معاش بھی ایک ہی ہو(یعنی والد کے ساتھ رہنے والے بیٹے، اپنے والد ہی کے ساتھ ان کے کاروبار اور کام میں ان کے مددگار و معاون ہوں)، تو ایسی صورت میں شرعا تمام اولاد والد کی خادم اور معاون تصور ہوتی ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اگر اولاد اور والد نے اکٹھے مل کر کوئی جائیداد بنائی ہے، تو وہ والد کی ملکیت ہوتی ہے، چنانچہ اگر والد اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو اپنی پوری ملکیت بھی ہدیہ (گفٹ) کر دے، تو شرعا اس کو یہ اختیار حاصل ہے، اور وہ جائیداد والد کی وفات کے بعد ان کی وراثت میں شمار ہو کر تقسیم نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی سنن أبی داود:

عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رجلاً أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ! إن لي مالاً وولدًا، وإن والدي یحتاج مالي۔ قال: ’’أنت ومالک لوالدک، إن أولادکم من أطیب کسبکم فکلوا من کسب أولادکم‘‘.

(سنن أبي داؤد، کتاب الإجارۃ / باب في الرجل یأکل من مال ولدہ ۲؍۴۹۸ رقم: ۳۵۳۰ دار الفکر بیروت)

وفی شرح المجلۃ:

"إذا عمل رجل في صنعۃ ہو وابنہ الذي في عیالہ فجمیع الکسب لذلک الرجل، وولدہ یعد معینا لہ، فیہ قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعۃ واحدۃ إذ لو کان لکل منہما صنعۃ یعمل فیہا وحدہ فربحہ لہ".

(شرح المجلۃ لسلیم رستم باز ۲/ ۷۴۱، رقم المادۃ: ۱۳۹۸)

وفی تنقيح الفتاوى الحامدية:

"في الفتاوى الخيرية: سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته؟ أجاب: هي للابن، تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه . وأما قول علمائنا "أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله" فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط: منها:
(١) اتحاد الصنعة
(٢) وعدم مال سابق لهما
(٣) وكون الابن في عيال أبيه، فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب، وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم " لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع"، فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ. ...... وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله: إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه، وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه، وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه، وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه، وإن لم يكونوا بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال، وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثاً بيقين، والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته.

(تنقيح الفتاوى الحامدية:٤/ ٤٢٠)

وفي رد المحتار:

قوله ( وما حصلاه معاً، الخ ) يعني ثم خلطاه وباعه فيقسم الثمن على كيل أو وزن ما لكل منهما وإن لم يكن وزنيا ولا كيليا قسم على قيمة ما كان لكل منهما وإن لم يعرف مقدار ما كان لكل منهما صدق كل واحد منهما إلى النصف لأنهما استويا في الاكتساب وكأن المكتسب في أيديهما
فالظاهر أنه بينهما نصفان والظاهر يشهد له في ذلك فيقبل قوله ولا يصدق على الزيادة على النصف إلا ببينة لأنه يدعي خلاف الظاهر ا هـ فتح
مطلب اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية
تنبيه: يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي ا هـ".

(رد المحتار: ٤/ ٣٢٥)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5073