مہر فاطمی کی مقدار٬ مستقبل میں طلاق وغیرہ کے خوف سے نکاح نامہ میں مہر زیادہ لکھوانے کا حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! مہر فاطمی کی مقدار کتنی ہے؟ یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ آج کل جو نکاح کے وقت زیادہ مہر صرف اس لئے لکھا جاتا ہے کہ اگر مستقبل میں کہیں طلاق یا ناراضگی کا معاملہ پیش آجائے تو لیا جائے گا، اسکی شرعی حوالے سے کیا حیثیت ہے؟

جواب کا متن:

1..."مہرِ فاطمی" کی مقدار احادیث مبارکہ میں ساڑھے بارہ اوقیہ منقول ہے٬ اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، تو اس حساب سے "مہر فاطمی" پانچ سو درہم بنتے ہیں۔
موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی بنتی ہے٬ اور آج کل کے مروجہ گرام کے حساب سے ایک کلو پانچ سو تیس (530) گرام اور نو سو (900) ملی گرام چاندی بنتی ہے۔

2...واضح رہے کہ نکاح نامہ میں مہر کی جتنی مقدار لکھی جائے٬ اس کے مطابق ادائیگی شرعا لازم ہوتی ہے٬ اس لئے جتنا مہر دینا مقصود ہو، وہی لکھنا چاہئے٬ نیز مہر میں غلو سے کام لینا اور شوہر کی استطاعت سے کہیں زیادہ حق مہر لکھوانا شرعا پسندیدہ نہیں ہے٬ میاں بیوی کے رشتے کی اصل بنیاد باہمی خلوص، وفاداری٬ اعتماد اور للہیت ہے٬ اگر یہ نہ ہو تو کروڑوں کے مال اسباب بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتے٬ اور اگر یہ چیز موجود ہو تو فاقہ کشی بھی اس نازک رشتے کو متزلزل نہیں کرسکتی٬ زیادہ جہیز دینا یا زیادہ حق مہر لکھوانا میاں بیوی کے باہمی رشتے کو مضبوط نہیں بناتا٬ اس لئے بلاوجہ ایسی لایعنی شرائط رکھنا اور استطاعت سے کہیں زیادہ مہر لکھوانا مناسب نہیں ہے٬ کیونکہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ بہت زیادہ مہر نہ رکھا جائے٬ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے٬ تاہم اگر نکاح نامے پر جتنا مہر لکھوایا جائے، اگر شوہر اس پر دستخط کر کے رضامندی کا اظہار کر دے٬ تو اس پر پورے مہر کی ادائیگی شرعا لازم ہوجائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی الصحیح لمسلم:

"عنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ؟ قَالَتْ کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَةٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ لِأَزْوَاجِهِ.

(باب الصداق وجواز کونہ تعلیم قران الخ، ج2، ص 1042، رقم: 1426، دار احياء التراث العربي بيروت)

و فی المصنف ابن ابی شیبة:

"عنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ صَدَاقُ بَنَاتٍ النَّبِيِّ وَصَدَاقُ نِسَائِهِ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ.

(ج3، ص 493، رقم: 16373، مکتبة الرشد الرياض)

قال ابن سعد فی طبقات الکبری:

"اثْنَيْ عَشَرَ أَوْقِيَةَ وَنِصْفًا"

وفی مشکوة المصابيح:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي"

(رقم الحديث: 3204)


و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5070