روح کی حقیقت کیا ہے؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! روح کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے روح کو کس چیز سے پیدا کیا ہے؟

جواب کا متن:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
(سورۃ الاسراء، آیت نمبر 85)

ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے پرودگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے، وہ بس تھوڑا سا علم ہے۔

جواب میں اتنی بات فرمائی گئی ہے، جو انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی ہے۔

انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آجاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، مثلاً: نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے، جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ کے حکم سے وجود میں آتی ہے۔

اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا انسانی عقل کے بس میں نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ تمہیں بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے، اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔

(ماخوذ از ''آسان ترجمہ قرآن")


بعد کے زمانے میں فلاسفہ، عقلاء اور سائنس دانوں نے اپنی علمی بساط کے مطابق 'رو ح' کے بارے میں اظہارِ خیال کیا اور مسئلہ روح پر مستقل کتابیں اور رسائل لکھے گئے۔

اسی طرح مفسرین حضرا ت میں بھی دو جماعتیں ہیں: بعض مفسرین نے اس مسئلہ میں تفصیل اور گہرائی میں جانے سے گریز کیا ہے اور انہوں نے اُسی اجمال کو ترجیح دی ہے، جسے کلام اللہ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جمہور علماء نے ﴿ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّيْ ﴾کے پیشِ نظر اس مسئلہ میں سکوت اختیار کرنے کو ہی افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ 'تفسیر عثمانی' میں لکھتے ہیں:

یعنی روحِ انسانی کیا چیز ہے؟ اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے؟ یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہودِ مدینہ نے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزمانے کو کیا تھا۔ اور "سیر" کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں قریش نے یہود کے مشورہ سے یہ سوال کیا۔ اسی لیے آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے نزول مکرر ہوا ہو، واللہ اعلم۔ یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے، اُدھر سے تو اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں از راہِ تعنت و عناد جھگڑتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخہ شفا سے فائدہ اٹھاتے، وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا (شوری رکوع5) ینزل الملائکۃ بالروح من امرہ علی من یشاء من عبادہ (نحل رکوع 1) مگر انہیں دور ازکار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں "روح" کیا ہے؟ جوہر ہے یا عرض؟ مادی ہے یا مجرد؟ بسیط ہے یا مرکب؟ اس قسم کے غامض اور بے ضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ نجات موقوف ہے، نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائضِ تبلیغ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ آج تک خود "مادہ" کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے، "روح" جو بہرحال "مادہ" سے کہیں زیادہ لطیف و خفی ہے، اس کی اصل ماہیت وکنہ تک پہنچے کی پھر کیا امید کی جاسکتی ہے۔ مشرکینِ مکہ کی جہالات اور یہودِ مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی، وہ روح کی حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہوگی؟'


بعض مفسرین حضرات ایسے ہیں، جو روح کے بارے میں تفصیل کرتے ہیں، اور اس کی حقیقت وماہیئت کو کسی حد تک آشکارا کرتے ہیں۔

'ارشاد المفتین' (79/1) میں ہے:

'ایک لطیف ذات ہے، جو ہوا کی طرح بدن میں ایسے سرایت کرتی ہے، جیسے پانی درخت کی ٹہنیوں میں سرایت کرتا ہے، روح نفس کی اصل اور اس کا مادہ ہے، اور نفس مرکب ہے، دو چیزوں سے روح اور روح کا بدن کے ساتھ اتصال سے'۔

خلاصہ کلام:
روح کی حقیقت میں علماء، فلاسفہ اور سائنسدانوں کے بہت سے اقوال ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی حقیقت سوائے خدائے علیم و خبیر کے کسی کو معلوم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

قال اللہ تعالیٰ:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
(سورۃ الاسراء، آیت نمبر 85)


قال ابن کثیر في تفسیر قوله تعالیٰ:

﴿ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ﴾ ثمّ ذکر السهیلي الخلاف بین العلماء في أن الروح هي النفس أو غیرها وقرر أنها ذات لطیفة کالهواء ساریة في الجسد کسریان الماء في عروق الشجر… فحاصل مانقول: إن الروح هي أصل النفس و مادتها والنفس مرکبة منها ومن اتصالها بالبدن فهي من وجه لامن کل وجه وهذا معنی حسن والله أعلم۔

(ص 1804)


کذا فی الصحیح البخاری:

حدثنا قیس بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الاعمش، سلیمان عن ابراہیم، عن علقمۃ، عن عبد اللہ، قال بینا انا امشی، مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم فی خرب المدینۃ، وہو یتوکا على عسیب معہ، فمر بنفر من الیہود، فقال بعضہم لبعض سلوہ عن الروح‏.‏ وقال بعضہم لا تسالوہ لا یجیء فیہ بشىء تکرہونہ‏.‏ فقال بعضہم لنسالنہ‏.‏ فقام رجل منہم فقال یا ابا القاسم، ما الروح فسکت‏.‏ فقلت انہ یوحى الیہ‏.‏ فقمت، فلما انجلى عنہ، قال ‏{‏ویسالونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا‏}‏‏.‏ قال الاعمش ہکذا فی قراءتنا‏.‏

(كتاب العلم، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً}، رقم الحدیث 125، 41/1، دارالکتب العلمیہ،بیروت)


وفی شرح الفقه الأكبر:

واختلف في حقیقة الروح، فقیل: إنه جسم لطیف شابک الجسد مشابکة الماء بالعود الأخضر أجری الله تعالیٰ العادة بأن یخلق الحیاة ما استمرت هي في الجسد، فإذا فارقته توقت المدة الحیاة '۔
( ص124)




واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4828