سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکوة کی رقم مستحق کو تملیکاً (مالک بنا کر) دی جائے، تاکہ وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔
چونکہ دسترخوان پر بٹھا کر روٹی کھلانے کی صورت میں روٹی ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے، تاکہ وہ حسبِ طلب کھالیں، باقی بچی ہوئی روٹی انھیں اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، جسے عربی میں "اباحت" کہتے ہیں، اس لیے اس صورت میں "تملیک" نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے، نیز اس صورت میں مستحق افراد کی تعیین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
البتہ اگر مستحقِ زکوٰۃ کو روٹی اس طرح حوالے کی جائے کہ وہ چاہے تو اسی وقت کھالے یا اپنے ساتھ لے جائے، اس صورت میں زکوۃ ادا ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی الشامیۃ:
"(ھی تملیک) خرج الاباحۃ فلو اطعم یتیما ً ناویاً الزکاۃ لا یجزیہ الا اذا دفع الیہ المطعوم کما لو کساہ".
(الدرالمختار: کتاب الزکوٰۃ)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی