سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ اگر ملازم وقت کی بنیاد (time base) پر کام کرتا ہے، تو اس کو شرعا "اجیر خاص" کہا جاتا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ وہ کمپنی کی طرف سے مقررہ وقت پر اپنے آپ کو حاضر کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی بنیاد پر وہ تنخواہ کا بھی حق دار ہوتا ہے، لہذا کمپنی کو اپنے سابقہ معاہدے کے مطابق ملازم کو اس کی پوری اجرت دینی ہوگی، پھر اگر ملازم کمپنی کی نئی پالیسی کے مطابق کام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے، تو یہ نیا معاہدہ ہے، اس معاہدہ کی وجہ سے ملازم پر ضروری ہے کہ وہ متعینہ وقت کمپنی کے کام میں صرف کرے اور طے شدہ معاہدے کی پاسداری کرے، لہذا کمپنی کے اوقات میں اپنا ذاتی کام کرنا خیانت کے زمرے میں آئے گا۔
ہاں! اگر کمپنی کے ذمہ داران سے اجازت لے کر ذاتی کام کیا جائے، تو اس کی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی الشامیۃ:
"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، وعليه الفتوى".
(رد المحتار: 6 /70، کتاب الإجارة، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
(مزید سوالات کے جوابات کے ملاحظہ فرمائیں)
http://AlikhlasOnline.com