سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ اگر اس نابالغ بچے کا حقیقی والد صاحب نصاب نہیں ہے، اور اس بچے کے پاس ان زیورات کے علاؤہ مال تجارت اور ضرورت سے زائد نقدی رقم چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، بھی موجود نہیں ہے، تو ایسی صورت میں اگر آپ زکوٰۃ کی نیت سے اس بچے کو پیسوں اور کھانے وغیرہ کا باقاعدہ مالک بنا دیتے ہے، تو وہ بچہ چاہے جس کے پاس بھی رہتا ہو، ان خرچ ہونے والے پیسوں کو آپ زکوٰۃ میں شمار کرسکتے ہیں، لیکن اگر آپ اس بچے کو زکوٰۃ کی نیت سے باقاعدہ ان اخراجات کا مالک نہیں بناتے بلکہ صرف استعمال کی اجازت دیتے ہیں، تو اس صورت میں ان اخراجات کو آپ زکوٰۃ میں شمار نہیں کرسکتے، نیز اس سے پہلے جو اخراجات آپ نے اس بچے پر خرچ کئے ہیں، اگر اس بچےکو آپ نے زکوٰۃ کی نیت سے ان اخراجات کا باقاعدہ مالک بنا دیا تھا، تو آپ ان اخراجات کو زکوٰۃ میں شمار کرسکتے ہیں، ورنہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لمافی الدر المختار مع شرحہ:
ﺑﺎﺏ المصرﻑ ﺃﻱ ﻣﺼﺮﻑ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻭاﻟﻌﺸﺮ، ﻭﺃﻣﺎ ﺧﻤﺲ اﻟﻤﻌﺪﻥ ﻓﻣﺼﺮﻑﻫ ﻛﺎﻟﻐﻨﺎﺋﻢ (ﻫﻮ ﻓﻘﻴﺮ، ﻭﻫﻮ ﻣﻦ ﻟﻪ ﺃﺩﻧﻰ ﺷﻲء) ﺃﻱ ﺩﻭﻥ ﻧﺼﺎﺏ ﺃﻭ ﻗﺪﺭ ﻧﺼﺎﺏ ﻏﻴﺮ ﻧﺎﻡ ﻣﺴﺘﻐﺮﻕ ﻓﻲ اﻟﺤﺎﺟﺔ.
وفی الشامیة تحتہ .....ﻫﻮ ﻣﺼﺮﻑ ﺃﻳﻀﺎ ﻟﺼﺪﻗﺔ اﻟﻔﻄﺮ ﻭاﻟﻜﻔﺎﺭﺓ ﻭاﻟﻨﺬﺭ ﻭﻏﻴﺮ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ اﻟﺼﺪﻗﺎﺕ اﻟﻮاﺟﺒﺔ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﻘﻬﺴﺘﺎﻧﻲ.(ج:2، ص: 339، ط: دارالفکر بیروت )
وفی رد المحتار:
ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﻻ ﺇﻟﻰ ﻃﻔﻠﻪ) ﺃﻱ اﻟﻐﻨﻲ ﻓﻴﺼﺮﻑ ﺇﻟﻰ اﻟﺒﺎﻟﻎ ﻭﻟﻮ ﺫﻛﺮا ﺻﺤﻴﺤﺎ ﻗﻬﺴﺘﺎﻧﻲ، ﻓﺄﻓﺎﺩ ﺃﻥ اﻟﻤﺮاﺩ ﺑﺎﻟﻄﻔﻞ ﻏﻴﺮ اﻟﺒﺎﻟﻎ ﺫﻛﺮا ﻛﺎﻥ ﺃﻭ ﺃﻧﺜﻰ ﻓﻲ ﻋﻴﺎﻝ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻭﻻ ﻋﻠﻰ اﻷﺻﺢ ﻟﻤﺎ ﻋﻨﺪﻩ ﺃﻧﻪ ﻳﻌﺪ ﻏﻨﻴﺎ ﺑﻐﻨﺎﻩ ﻧﻬﺮ(ج:2، ص: 350،ط: دارالفکر بیروت )
وفیہ ایضا:
ﻭﻳﺸﺘﺮﻁ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﺼﺮﻑ (ﺗﻤﻠﻴﻜﺎ) ﻻ ﺇﺑﺎﺣﺔ ﻛﻤﺎ ﻣﺮ ۔
(ج:2،ص: 344،ط: دارالفکر بیروت )
وفیہ ایضا:
(ﻭﺷﺮﻁ ﺻﺤﺔ ﺃﺩاﺋﻬﺎ ﻧﻴﺔ ﻣﻘﺎﺭﻧﺔ ﻟﻪ) ﺃﻱ ﻟﻷﺩاء (ﻭﻟﻮ) ﻛﺎﻧﺖ اﻟﻤﻘﺎﺭﻧﺔ (ﺣﻜﻤﺎ) ﻛﻤﺎ ﻟﻮ ﺩﻓﻊ ﺑﻼ ﻧﻴﺔ ﺛﻢ ﻧﻮﻯ ﻭاﻟﻤﺎﻝ ﻗﺎﺋﻢ ﻓﻲ ﻳﺪ اﻟﻔﻘﻴﺮ، ﺃﻭ ﻧﻮﻯ ﻋﻨﺪ اﻟﺪﻓﻊ ﻟﻠﻮﻛﻴﻞ ﺛﻢ ﺩﻓﻊ اﻟﻮﻛﻴﻞ ﺑﻼ ﻧﻴﺔﺃﻭ ﺩﻓﻌﻬﺎ ﻟﺬﻣﻲ ﻟﻴﺪﻓﻌﻬﺎ ﻷﻥ اﻟﻤﻌﺘﺒﺮ ﻟﻠﻔﻘﺮاء ﺟﺎﺯ ﻧﻴﺔ اﻷﻣﺮ ﻭﻟﺬا ﻟﻮ ﻗﺎﻝ ﻫﺬا ﺗﻄﻮﻉ ﺃﻭ ﻋﻦ ﻛﻔﺎﺭﺗﻲ ﺛﻢ ﻧﻮاﻩ ﻋﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻗﺒﻞ ﺩﻓﻊ اﻟﻮﻛﻴﻞ ﺻﺢ(ج:2، ص: 269،ط:دارالفکر بیروت )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
http://AlikhlasOnline.com