جو کمرہ نماز کے لیے پہلے سے مختص نہ ہو، اس پورے کمرے کو اعتکاف کے لیے مختص کرنے کا حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا کسی ایسے پورے کمرے کو اعتکاف کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے، جو پہلے سے نماز کے لیے مختص نہ ہو اور صرف اعتکاف کرنے کے لیے اس کمرے کو نماز کے لیے مختص کیا گیا ہو؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کمرے کے کتنے حصے کو اعتکاف کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ بہتر تو یہ ہے کہ گھر میں جہاں پنج وقتی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں پر ہی اعتکاف کیا جائے، لیکن اگر گھر میں پہلے سے پنج وقتی نماز کے لیےکوئی جگہ مقرر نہ ہو، یا جگہ مقرر ہو، لیکن وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھنے میں مشکل ہورہی ہو، تو ایسی مجبوری کی صورت میں گھر میں کسی بھی جگہ کو نماز کے لیے مختص کرکے وہاں پر اعتکاف کے لیے بیٹھا جاسکتا ہے، نیز اعتکاف کے لیے پورے کمرے یا کمرے کے کچھ حصے کو بھی مختص کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

کما فی الدر المختار مع حاشية ابن عابدين :
لبث (امرأة في مسجد بيتها) ويكره في المسجد، ولا يصح في غير موضع صلاتها من بيتها كما إذا لم يكن فيه مسجد ولا تخرج من بيتها إذا اعتكفت فيه۔۔۔ الخ
(قوله في مسجد بيتها) وهو المعد لصلاتها الذي يندب لها ولكل أحد اتخاذه كما في البزازية نهر ومقتضاه أنه يندب للرجل أيضا أن يخصص موضعا من بيته لصلاته النافلة أما الفريضة والاعتكاف فهو في المسجد كما لا يخفى۔۔۔ (قوله كما إذا لم يكن فيه مسجد) أي مسجد بيت وينبغي أنه لو أعدته للصلاة عند إرادة الاعتكاف أن يصح۔
(باب الاعتکاف، ج:2، ص:441، الناشر: دار الفكر)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4384