سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ شوال کے روزے نفل ہیں، جبکہ قضا کے روزے رکھنا شرعا اس کے ذمہ لازم ہیں، دونوں کی الگ الگ حیثیت ہے، اس لئے جس شخص کے ذمہ روزوں کی قضا ہو، وہ شوال کے چھ نفلی روزے بھی رکھ سکتا ہے، لیکن اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے قضا روزے رکھے، پھر نفل روزے رکھے، اور اگر کوئی شخص شوال کے نفل روزوں میں قضا روزوں کی نیت کرتاہے، تو اس صورت میں قضا روزے ہی ادا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل
لما فی الفتاوی الہندیۃ:
وإذا نوی قضاء بعض رمضان والتطوع یقع عن رمضان في قول أبي یوسف رحمہ اللہ تعالی، وہو روایۃ عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی، کذا في الذخیرۃ ۔
(ج1، ص197، کتاب الصوم، الباب الأول)
تبيين الحقائق :
ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب
(ج3، ص13)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی