نعت کے بیک گراؤنڈ(back ground) میں اللہ تعالی کا نام مخصوص انداز سے پڑھنے کا حکم

سوال کا متن:

آج کل نعت خوان حضرات نعت پڑھنے میں ایسا کرتے ہیں کہ جب نعت پڑھنے والا جذبے والے مصرعے کو پہنچ جاتا ہے تو پہلے نعت خوان نعت پڑھتا ہے اور دوسرا تیز چیخ لگاکر اللہ کا نام یعنی اللہ ہو اللہ ہو تیز شروع کردیتا ہے، جس کا مقصد صرف نعت کا سور اور مزے کو زیادہ کرنا ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسا دف یا ڈول، آیا لفظ اللہ ذکر کے علاوہ ایسے لا یعنی کام کیلئے بھی جائز ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ آج کل نعت کے بیک گراؤنڈ (back ground) میں اللہ تعالیٰ کا نام جس مخصوص انداز سے لیا جا تا ہے، اس انداز کو درج ذیل وجوہات کی بناء پر ترک کرنا لازم ہے:

1:اللہ تعالی کا نام لینے سے ذکر کے بجائے نعت کی دھن برابر کرنا مقصود ہوتا ہے، جو اللہ تعالی کے نام کے ساتھ سخت بے ادبی ہے۔

2:اللہ تعالی کا نام جان بوجھ کر اس انداز سے لیا جاتا ہے، جس سے دھمک پیدا ہوتی ہے، جو ڈھول سے مشابہ آواز پیدا کرتی ہے۔

3:حد سے زیادہ اونچی آواز میں ذکر کی خرابی لازم آتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما في القرآن الکریم:
{‏‏ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ‏} ‏[‏الأعراف‏:‏ 55- 56‏]

وفی تفسیر السعدی:

قــال تــعــالــى :

{ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ}
[سورة الأعراف:55 ]
الدعاء يدخل فيه دعاء المسألة، ودعاء العبادة
فأمر بدعائه { تَضَرُّعًا }
أي: إلحاحا في المسألة، ودُءُوبا في العبادة
{ وَخُفْيَةً }
أي: لا جهرا وعلانية، يخاف منه الرياء
بل خفية وإخلاصا للّه تعالى.
{ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ }
أي: المتجاوزين للحد في كل الأمور
ومن الاعتداء كون العبد يسأل اللّه مسائل لا تصلح له
أو يتنطع في السؤال، أو يبالغ في رفع صوته بالدعاء
فكل هذا داخل في الاعتداء المنهي عنه.
[سورة الأعراف:55 ]

وفي حاشية ابن عابدين:
مطلب في رفع الصوت بالذكر
(قوله ورفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارة قال: إنه حرام، وتارة قال إنه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو " «وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ولا يعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي» لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين، ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر، ويصرف سمعه إليه، ويطرد النوم، ويزيد النشاط. اهـ. ملخصا، وتمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ.
(باب ما يفسد الصلاه وما يكره فيها، فروع افضل المساجد، ج:1، ص:660، الناشر : دار الفكر)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4340