سوال کا متن:
جواب کا متن:
لغت میں بدعت کسی امرِ نَو (نئے کام) کی ایجاد کو کہتے ہیں اور اصطلاح شرع میں ہر ایسے نو ایجاد طریقۂ عبادت کو بدعت کہتے ہیں، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں جس کا داعیہ اور سبب موجود ہو نے کے باوجود وہ طریقۂ عبادت نہ قولاً ثابت ہو اور نہ ہی فعلاً ، نہ صراحتاً ثابت ہو اور نہ ہی اشارتاً، ایسی چیز کو اجروثواب کی نیت سے عبادت سمجھ کر کرنے کو بدعت کہا جاتاہے، جو شریعت کے اندر جائز نہیں ہے۔
بدعت کی دوقسمیں ہیں (1)بدعت سیئہ (2)بدعت حسنہ
(1)بدعت سیئة کہتے ہیں، ایسی چیزکا ایجاد کرنا، جس کی عہد رسالت میں کوئی بنیاد نہ ہو، اوروہ ادلہ شرعیہ (قرآن،حدیث، اجماع اور قیاس) کے مخالف ہو، اور اس کو دین سمجھ کر کیا جائے۔ جیسے: مروجہ عید میلاد النبیؐ وغیرہ وغیرہ۔
(2)بدعت حسنہ وہ نیا امر ہے، جو ادلہ شرعیہ کے مخالف نہ ہو اور اسے دین کی حفاظت اور تقویت کے لیے سر انجام دیا جائے، یہ بدعت حسنہ کہلاتی ہے، جو کہ مذموم نہیں ہے۔ جیسے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدرسہ عمارت کی شکل میں نہ تھا، صرف ایک چبوترہ تھا، اب عمارت اور کمروں والا مدرسہ ایک نیا کام ہے، لیکن بہتر کام ہے، اس کو لغوی اعتبار سے عربی میں بدعت حسنہ کہتے ہیں، یعنی نیا اچھا کام۔
اسی طرح قرآن مجید پر اعراب اور فصل و وصل وغیرہ کی علامات لکھنا اور حدیث و فقہ کی تدوین اور حسب تقاضائے ضرورت مختلف زبانوں میں دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت اور مدارس کا قیام وغیرہ یہ سب بدعت حسنہ کے قبیل سے ہیں۔
واضح رہے کہ بدعت کی یہ تقسیم صرف لغت کے اعتبار سے ہے، ورنہ اصطلاحی اعتبار سے تو بدعت صرف ایک ہی ہے اور وہ سیئہ ہے، جو کفر وشرک کے بعد بڑے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ہے۔
_________________________
دلائل:
لما فی الصحیح البخاری:
وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ ، فَقَالَ عُمَرُ :إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ ، قَالَ عُمَرُ : نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ .
(رقم الحدیث: 2010)
کما فی الفتح الباری:
والتحقيق انها ان کانت مما تندرج تحت مُستحسن فی الشرع فهی حسنة وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة فی الشرع فہی مستقبحۃ والا فہی من قسم المباح وقد تنقسم الی الا حکام الخمسۃ۔
(ج:4، ص:253)
کما فی احکام القرآن للقرطبی:
وقال القرطبی: کل بدعۃ صدرت من مخلوق فلا یخلوا ان یکون لہا اصل فی الشرع اولا فان کان لہا اصل کانت واقعۃ تحت ما ندب اللہ الیہ وحفن رسولہ الیہ فہی فی حیزالمدح وان لم یکن مثالہ الخ۔۔۔
(ج:1، ص:87)
کما فی المرقاۃ:
قال الملا علی قاری: قال النووی البدعۃ کل شیٔ عمل علی غیر مثال سبق وفی الشرع احداث ما لم یکن فی عہد رسول اللہﷺ (ج:2، ص216)
کما فی احیاء العلوم:
قال الامام الغزالی: اذا لم یرد فیہ نہی فلا ینبغی ان یسمی بدعۃ ومکروہا ولکنہ ترک الاحب وقال الشافعی ما خالف الکتاب والسنۃ او الاثر او الاجماع فہو ضلالۃ وما احدث من الخیر مما لا یخالف شیئاً من ذلک فلیس بمذموم
(ج:2، ص:231)
کما فی رد المحتار:
قال العلامۃ ابن عابدین: بدعۃ ای محرمۃ والا فقد تکون واجبۃ … ومندوبۃ… وکل احسان لم یکن فی الصدر الاول ومکروہۃ… ومباحۃ الخ۔۔۔
(ج:1، ص:414)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی