تراویح کی نماز میں قرآن کریم دیکھ کر امامت کروانے والے کی اقتداء کرنے کا حکم

سوال کا متن:

السلام عليكم، مفتی صاحب ! ہماری بلڈنگ میں مصری لوگ بھی رہتے ہیں، ان میں سے ایک صاحب کچھ سپاروں کے حافظ ہیں، میں نے ان سے درخواست کی کہ اس بار بلڈنگ کی چھت پر آپ تراویح پڑھا دیں، چنانچہ انہوں نے آٹھ رکعت تراویح کی نماز قرآن دیکھ کر پڑھانی شروع کر دی، بقیہ بارہ رکعتیں میں نے گھر میں ادا کیں، اب مروةً مجھے ساتھ میں پڑھنا پڑھ رہا ہے، کیونکہ سخت کرفیو کی وجہ سے اور کہیں جماعت مل بھی نہیں سکتی، اس تناظر میں سوال ہے کہ کیا مصری حافظ صاحب کی اقتداء میں پڑھی جانے والی آٹھ رکعت نماز ہو جاتی ہے یا مجھے ان رکعتوں کو لوٹانا پڑے گا؟

جواب کا متن:

مسلک احناف کے مطابق مصحف پاک سے دیکھ کر امامت کرنا مفسد نماز ہے، چاہے فرض نماز ہو، نفل ہو یا تراویح کی نماز ہو، سب کا یہی حکم ہے ، اس لیے حنفی المسلک شخص کے لیے ایسے امام ( جوکہ دوران امامت دیکھ کرقراءت کرتاہو ) کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
لہذا اسے اپنی تراویح ایسے شخص کی اقتداء میں پڑھنی چاہیے، جو دیکھ کر قرآن کریم کی تلاوت نہ کرتا ہو، اگر ایسا شخص میسر نہ ہو تو علیحدہ اپنی تراویح پڑھنی چاہیے۔
لیکن اگر کوئی صورت ممکن نہ ہو، نیز مذکورہ صورت سے ہٹ کر نماز پڑھنے میں شدید فتنے کا اندیشہ ہو، تو چونکہ فقہاء احناف میں سے صاحبین رحمہما اللہ کا ایک قول کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جانے کا بھی ملتا ہے، لہذا فتنے سے بچنے کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں صاحبین رحمہما اللّٰہ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما جاء فی سنن الترمذی:
"فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلَاتَلْتَفِتُوْا فَإِنَّ اللّٰه یَنْصِبُ وَجْهَه لِوَجْهِ عَبْدِه فِيْ صَلَاتِه مَا لَمْ یَلْتَفِتْ"․
(سنن الترمذی، حدیث: ۲۸۶۳، مستدرک الحاکم، حدیث:۸۶۳)

ترجمہ:
”جب نماز پڑھو تو اِدھر اُدھر نہ دیکھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نماز میں اپنا رُخ بندہ کے چہرہ کی طرف اس وقت تک کیے رکھتے ہیں؛ جب تک بندہ اپنا رخ نہیں پھیرتا۔“


مستدرک حاکم کی روایت میں ہے:
" دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الْکَعْبَةَ مَا خَلَفَ بَصَرُہُ مَوْضِعَ سُجُوْدِہِ حَتّٰی خَرَجَ مِنْہَا․"
(المستدرک للحاکم، حدیث:۱۷۶۱)
ترجمہ:
”جب آپ صلی الله عليه وسلم کعبہ میں داخل ہوئے تو اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ سے نہیں اٹھائی؛ یہاں تک کہ آپ صلی الله عليه وسلم کعبہ سے باہر تشریف لے آئے۔“

بخاری شریف کی روایت ہے
" صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِي أُصَلِّيْ․"
(صحیح البخاری، حدیث:۶۳۱)
ترجمہ:
اس طرح نماز پڑھو جیسے تم لوگ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
" نَہَانَا أمیرُ المُوٴمِنِیْنَ عُمَرُ رضی اللّٰہ عنہ أَن یَوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ، وَنَہَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا اِلَّا الْمُحْتَلِمُ․"
(کتاب المصاحف، ہل یوٴم القرآن فی المصحف:۱۸۹)
ترجمہ:
”ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کرے اور اس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے۔“

وقال ابن سیرین رحمہ اللّٰہ:
"کانوا یستحبون أن ینظر الرجل في صلاته إلی موضع سجوده"․
(تعظیم قدر الصلاة:۱/۱۹۲)

ترجمہ:
”صحابہ کرام اسے مستحب سمجھتے تھے کہ آدمی نماز میں اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ پر رکھے۔“

وفی بدائع الصنائع:
"أن هذا یلقن من المصحف فیکون تعلمًا منه، ألا تری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلماً فصار کما لو تعلم من معلم، وذا یفسد الصلاة فکذا هذا"․
(بدائع الصنائع: ۲ /۱۳۳)

وفی اعلاء السنن:
"القرأۃ من المصحف فی الصلاۃ، مفسدۃ عند أبی حنیفۃ لأنہ عمل کثیر ( أو لأنہ تلقن منہ ) وعند أبی یوسف ؒومحمد ؒ یجوز لأن النظر فی المصحف عبادۃ ولکنہ یکرہ لمافیہ من التشبہ بأہل الکتاب فی ہذہ الحالۃ وبہ قال الشافعی وأحمد وعند مالک وأحمد فی روایۃ لا تفسد فی النفل فقط".
(اعلاء السنن ، کتاب الصلاۃ، باب فساد القرآن من المصحف، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۶۲، کراچی ۵ /۵۱، ۵۲)

وقال الامام محمد رحمہ اللّٰہ:
ما یعجبني إلا یضطر إلی ذلک․ (فتح الرحمن:۱۲۷)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4141