سوال کا متن:
جواب کا متن:
مذکورہ صورت میں کمپنی کی طرف سے ملازم کو دئے گئے پیٹرول کارڈ (Fuel Card) سے 12 ہزار روپے کی حد تک پیٹرول استعمال کرنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ دوران ماہ ملازم 12 ہزار کے اندر رہتے ہوئے پیٹرول استعمال کرسکتا ہے،چنانچہ ملازم نے گاڑی میں جتنا پیٹرول ڈلوایا، وہ اس کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر پیٹرول بچ جائے تو کمپنی کو واپس کرنا ضروری نہیں ہوتا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کارڈ پر جتنے پیسے لکھے ہوں، ملازم ان کے بقدر پورے پیٹرول کا یا پیسوں کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی مہینے میں 12 ہزار سے کم پیٹرول استعمال کرے، اور تین چار ہزار روپے کا پیٹرول بچ جائے، تو وہ بچی ہوئی مقدار ملازم کو واپس نہیں کی جاتی، بلکہ اگلے مہینے سے پھر نیا کھاتہ شروع ہوتا ہے۔(جیساکہ سائل سے مزید پوچھنے پر معلوم ہوا)
لہذا پیٹرول کارڈ کے استعمال کی مذکورہ پالیسی باہمی رضامندی سے شرعا درست ہے، یہ پیٹرول چونکہ کمپنی کی طرف سے اباحت کے طور پر محض استعمال کیلئے دیا جاتاہے، اس لئے گاڑی میں بچے ہوئے پیٹرول کو ذاتی استعمال میں لانا شرعا درست ہے، نیز اگر کمپنی کے قانون کے مطابق اگر اپنی گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کی اجازت ہو تو یہ بھی جائز ہے۔
البتہ چونکہ کمپنی کی طرف سے پیٹرول کارڈ پر لکھی ہوئی ساری مقدار کا ملازم کو مالک نہیں بنایا جاتا، (بلکہ جتنا پیٹرول ڈلوائے گا صرف اسی کے بقدر مالک ہوگا) اس لئے کارڈ سے بچے ہوئے پیسوں کو کیش کرانا شرعا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی سنن الترمذي:
أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما۔
(أبواب الأحکام، باب ما ذکر عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم في الصلح بین الناس، رقم:1352)
وفی الفتاوی الشامیہ:
قولہٗ (وکشرط طعام عبد وعلف دابۃ ) فی الظہیریۃ استاجر عبدا اودابۃ علیٰ ان یکون علفہا علی المستاجر ذکرفی الکتاب انہ لایجوز وقال الفقیہ ابواللیث فی الدابۃ ناخذ بقول المتقدمین امافی زماننا فالعبدیاکل من مال المستاجر عادۃ۱ھ وقال الحموی ای فیصح اشتراطہ واعترضہ بقولہ فرق بین الاکل من مال المستاجر بلاشرط ومنہ بشرط۱ھ اقول المعروف کالمشروط بہ یشرع کلام الفقیہ کما لایخفی علی النبیہ
(ج6، ص47، ط۔ایچ ایم سعید کراچی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی