اجیر خاص (Time based Employee) کو کام کا پابند بنانے اور کام پورا ہونے سے پہلے چھٹی نہ دینے کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب! اگر کوئی ملازم کام میں سستی کرتا ہو اور کام کے وقت میں کام پورا نہ کرتا ہو تو اس کو کام کا ٹارگٹ دیاجاسکتاہے؟ اور اگر وہ ٹارگٹ پورا نہ کرے تو مقررہ وقت کے بعد کام پورا کرنے کیلئے اوور ٹائم دئیے بغیر روکنا کیسا ہے؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔جزاک اللہ

جواب کا متن:

واضح رہے کہ اگر کسی کمپنی یا ادارے میں ملازمین وقت کی بنیاد (time based) پر کام کرتے ہیں، تو انہیں شرعا "اجیر خاص" کہا جاتا ہے، جن کا حکم یہ ہے کہ وہ کمپنی کی طرف سے مقررہ وقت پر اپنے آپ کو حاضر کرنے کے پابند ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر وہ تنخواہ کے بھی حق دار ہوتے ہیں۔
اور ایسے ملازمین جنہیں کام (work based) کی بنیاد پر کمپنی سے تنخواہ ملتی ہے، وہ شرعا "اجیر عام" کہلاتے ہیں، جن کا حکم یہ ہے کہ وہ کام کی طرف سے کام کی متعینہ مقدار یا ھدف پورا کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور متعینہ کام کرنے پر ہی اجرت کے مستحق ہوتےہیں۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ کمپنی کے وہ ملازمین جو تنخواہ پر کام کرتے ہیں، ان کے ساتھ کمپنی کا جو وقت طے ہوا ہو، ملازم پر اس وقت کی پابندی کرنا ضروری ہے، پھر چاہے کمپنی اس وقت میں اس سے کام لے یا نہ لے، ملازم اپنی حاضری کی بنا پر تنخواہ کا حق دار ہو گا، لہذا اجیر خاص کی صورت میں چونکہ وقت کی اجرت مقرر کی جاتی ہے، اس لیے اس صورت میں اگر انتظامی طور پر کام کی مقدار متعین کی جائے تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس مقدار کے پورا ہونے کے ساتھ اجرت کو مشروط کرنا شرعا درست نہیں ہے۔
ہاں! اگر ملازم ڈیوٹی کے دوران اپنے ذاتی کام میں وقت صرف کرتا ہے، تو اتنے وقت کی اجرت کا وہ حق دار نہیں ہوگا اور اگر کمپنی کو تحقیق سے اس کی کوتاہی معلوم ہو جائے، تو انصاف کے ساتھ صرف اتنے وقت کی اجرت میں کٹوتی کر سکتی ہے، یا اتنا ہی اضافی وقت ملازم سے لے سکتی ہے۔

البتہ تنخواہ دار ملازمین کی سستی ختم کرنے کے لیے درج ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں:
١- ملازمین کی سستی ختم کرنے کے لیے انتظامی طور پر ان کے کام کا اتنا ھدف مقرر کیاجاسکتا ہے، جس کو عام طور پر سہولت کے ساتھ اتنے وقت میں پورا کیا جاسکتا ہو، نیز کام کے دوران ان کو مناسب طریقے سے یاددہانی بھی کرائی جاسکتی ہے، تاکہ ملازمین غیر ضروری کاموں میں اپنا وقت صرف نہ کریں، لیکن ھدف پورا کرنا محض ترغیب کی حد تک ہو، ان کی اجرت کے استحقاق کے ساتھ مشروط نہ ہو۔
اگر اضافی وقت لیا بھی جائے، تو اس اضافی وقت کا مناسب معاوضہ(Over time) بھی دیا جائے۔
٢- ملازمین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے ھدف پورا کرنے پر الگ سے اضافی انعام مقرر کر لیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما في شرح المجلۃ لسلیم رستم باز :
"الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان فی مدۃ الإجارۃ حاضراً للعمل ۔۔۔۔ غیر أنہ یشترط أن یتمکن من العمل ، فلو سلم نفسہ ولم یتمکن فیہ لعذر کالمطر والمرض ، فلا أجر لہ ، ولکن لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ".
(شرح المجلۃ ۱ /۲۳۹)

وفي رد المحتار:
والثاني وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ".
(رد المحتار: ۹/۸۲ ، کتاب الإجارۃ ، وکذا فی البحر الرائق : ۸ /۵۲ ، کتاب الإجارۃ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4028