پلاٹ کو اپنے نام ٹرانسفر (transfer) ہونے سے پہلے آگے فروخت کرنا

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! احمد نے ایک سوسائٹی میں سعد سے پلاٹ خریدا، پلاٹ احمد کے نام ٹرانسفر ہونے میں 15 دن لگیں گے، کیا اس دوران احمد کے نام پر ٹرانسفر ہونے سے پہلے ہی احمد اسکو زبیر کو بیچنے کا معاہدہ کر سکتا ہے؟

جواب کا متن:

مذکورہ صورت میں اگر خریدا گیا پلاٹ صرف نقشے اور فائل کی حد تک نہ ہو٬ بلکہ موقع پر وہ موجود ہو٬ اور اس کا سائز٬ محل قوع اور سیکٹر وغیرہ متعین ہو٬ اور احمد اور سعد کے درمیان پلاٹ کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی صورت طے پاکر خریداری کا سودا حتمی ہوجائے، تو ایسی صورت میں وہ پلاٹ شرعا احمد کی ملکیت سمجھا جائے گا.
لہذا اگر پلاٹ بیچنے والے (سعد) کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو٬ تو احمد اس پلاٹ کو آگے فروخت کرسکتا ہے٬ اگرچہ کاغذی کاروائی میں وہ پلاٹ احمد کے نام منتقل (Transfer) نہ ہوا ہو٬ کیونکہ غیر منقولہ چیزوں (جائداد وغیرہ) کو قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا شرعا جائز ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

لما فی الہدایة:

"وإذا حصل الایجاب والقبول لزم البیع..... (ویثبت الملک لکل منہما)"

(ج3 ص23 ط. داراحیاء التراث العربی)

و في البحر الرائق :

ﻗﻮﻟﻪ: (ﺻﺢ ﺑﻴﻊ العقار ﻗﺒﻞ ﻗﺒﻀﻪ) : ﺃﻱ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ، ﻭﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ : ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ؛ ﻹﻃﻼﻕ اﻟﺤﺪﻳﺚ: ﻭﻫﻮ اﻟﻨﻬﻲ ﻋﻦ ﺑﻴﻊ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻘﺒﺾ ؛ ﻭﻗﻴﺎﺳﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻨﻘﻮﻝ ﻭﻋﻠﻰ اﻹﺟﺎﺭﺓ، ﻭﻟﻬﻤﺎ : ﺃﻥ ﺭﻛﻦ اﻟﺒﻴﻊ ﺻﺪﺭ ﻣﻦ ﺃﻫﻠﻪ ﻓﻲ ﻣﺤﻠﻪ ﻭﻻ ﻏﺮﺭ ﻓﻴﻪ ؛ ﻷﻥ اﻟﻬﻼﻙ ﻓﻲ العقار ﻧﺎﺩﺭ ، ﺑﺨﻼﻑ اﻟﻤﻨﻘﻮﻝ۔ ﻭاﻟﻐﺮﺭ اﻟﻤﻨﻬﻲ ﻏﺮﺭ اﻧﻔﺴﺎﺥ اﻟﻌﻘﺪ، ﻭاﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻌﻠﻮﻝ ﺑﻪ ﻋﻤﻼ ﺑﺪﻻﺋﻞ اﻟﺠﻮاﺯ....

ﻭﻓﻲ اﻟﺒﻨﺎﻳﺔ : ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻣﻮﺿﻊ ﻻ ﻳﺆﻣﻦ ﺃﻥ ﻳﺼﻴﺮ ﺑﺤﺮا ﺃﻭ ﺗﻐﻠﺐ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺮﻣﺎﻝ ﻟﻢ ﻳﺠﺰ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻋﺒﺮ ﺑﺎﻟﺼﺤﺔ ﺩﻭﻥ اﻟﻨﻔﺎﺫ ﺃﻭ اﻟﻠﺰﻭﻡ ؛ ﻷﻥ اﻟﻨﻔﺎﺫ ﻭاﻟﻠﺰﻭﻡ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﻧﻘﺪ اﻟﺜﻤﻦ ﺃﻭ ﺭﺿﺎ اﻟﺒﺎﺋﻊ، ﻭﺇﻻ ﻓﻠﻠﺒﺎﺋﻊ ﺇﺑﻄﺎﻟﻪ.

( ج : 6 ص : 126 ط : دارالكتاب الاسلامي )

وشرح المجلة، للخالد الاتاسی :

للمشتری ان یبیع المبیع لآخر قبل قبضہ ان کان عقارا۔

واشار بقولہ : للمشتری ان یبیع الخ : الی ان بیعہ جائز، لکن لایلزم من جواز البیع نفاذہ ولزومہ؛ فانھما موقوفان علی نقد الثمن او رضی البایع، والا فللبایع ابطالہ - ای ابطال بیع المشتری۔

( المادة : ٢۵٣، ٢/١٧٣، ط : مکتبة رشیدیة )


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6593