سوال کا متن:
جواب کا متن:
صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون اگر حاملہ نہ ہو، تو طلاق کے بعد تین کامل حیض (ماہواری) گزرنے تک عدت میں رہے گی، اور اگر حاملہ ہو، تو بچہ جننے تک عدت میں رہے گی۔
نیز نان نفقہ کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اگر خاتون اپنی عدت شوہر کے گھر میں گزارے(جیسا کہ شریعت کا حکم ہے) تو شوہر پر عدت کے دوران اس کا نان نفقہ واجب ہوگا، البتہ اگر خاتون اپنی عدت بغیر کسی عذر کے، شوہر کی مرضی کے بغیر اس کے گھر میں نہ گزارے، تو شوہر پر اس کا نان نفقہ بھی لازم نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما فی القرآن الکریم:
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓءٍ۔ (سورہ البقرہ 228)
کما فی الفتاویٰ التاتارخانیہ:
أجمع العلماء علی أن المطلقۃ طلاقًا رجعیًا تستحق النفقۃ والسکنیٰ أیضا مادامت العدۃ قائمۃ سواء کانت حاملا أو حائلا۔ ( ۵؍۳۹۹ رقم: ۸۳۰۲ زکریا)
کذا فی الھندیہ:
وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الاحتباس قائم".
(الفتاوى الھندیة: ١/ ٥٤٥)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی