اے آدم کے بیٹے! تو اپنا خزانہ میرے پاس امانت رکھوا(کرمطمئن ہو جا)‘۔۔۔۔"حضرت حسن بصریؒ" سے مروی حدیث قدسی کی تخریج

سوال کا متن:

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کرکے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا یہ خزانہ، میں پورا تجھے دوں گا، اس دن جب تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔ عَنِ الْحَسَنِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا یَرْوِیْ عَنْ رَّبِہٖ عَزَّوَجَلَّ اَنَّہ‘ یَقُوْلُ یَا بْنَ اٰدَمَ اُفْرُغْ مِنْ کَنْزِکَ عِنْدِیْ وَلَاحَرَقَ وَلَاغَرَقَ وَلَا سَرَقَ أُوْفِیْکَہ اَحْوَجَ مَا تَکُوْنُ اِلَیْہِ ۔ حوالہ: (ترغیب بحوالۂ طبرانی) مفتی صاحب ! اس حدیث کی تصدیق فرمادیں۔

جواب کا متن:

سوال میں ذکرکردہ روایت کو علامہ بیھقی نے "شعب الأیمان" میں مرسلاً ذکرکیا ہے، ذیل میں روایت،سند ،ترجمہ اور حکم کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے۔

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ومحمد بن موسى، قالا: حدثنا أبو العباس الأصم، حدثنا يحيى بن أبي طالب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عوف، عن الحسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يروي ذلك عن ربه عز وجل أنه يقول: " يا ابن آدم، أودع من كنزك عندي لا حرق، ولا غرق، ولا سرق أوفيكه أحوج ما تكون إليه " هذا مرسل۔

(شعب الأیمان للبیھقی،حدیث نمبر:۳۰۷۱، ج:۵، ص:۴۵، ط: مكتبة الرشد)

ترجمہ:

حضرت حسن بصری سے روایت ہے٫ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! تو اپنا خزانہ میرے پاس امانت رکھوا(کرمطمئن ہو جا)‘ نہ آگ لگنے کا خطرہ‘ نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا یہ خزانہ، میں پورا تجھے دوں گا ، اس دن جب تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔

مذکورہ بالا روایت کو علامہ منذری نے ’’الترغیب و الترھیب’’ میں طبرانی اور بیھقی کے حوالے سے ایک لفظ کے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے۔

مرسل کی تعریف :

یہ واضح رہے کہ محدثین کی اصطلاح میں مرسل حدیث اسے کہتے ہیں، جس میں صحابیؓ کا نام چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ کوئی تابعی کہے، قال رسول اللہ ﷺ(رسول اللہ ﷺ نے فرمایا )

مذکورہ بالا روایت کا حکم:

مذکورہ بالا روایت حضرت حسن بصری ؒ کی مرسل روایت ہے ۔

حضرت حسن بصری ؒ کی مرسل روایات قابل قبول ہیں۔
حضرت حسن بصریؒ کے مراسیل کے بارے میں ابن مدینیؒ کہتے ہیں کہ وہ ثقات سے روایت کرتے ہیں اور ابوزرعۃ کا کہنا ہے کہ حسن بصری جس حدیث کو قال رسول اللہ ﷺ کہہ کر روایت کرتے ہیں٫ اس کی کوئی نہ کوئی اصل مجھے ضرور ملی ہے۔

خلاصہ کلام:

مذکورہ بالا روایت کو حسن بصری ؒ کی مرسل کی صراحت کے ساتھ بیان کرنا درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی الترغیب و الترھیب للمنذری:

وعن الحسن رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه عز وجل أنه يقول يا ابن آدم أفرغ من كنزك عندي ولا حرق ولا غرق ولا سرق أوفيكه أحوج ما تكون إليه۔ رواه الطبراني والبيهقي وقال هذا مرسل وقد روينا عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال إن الله إذا استودع شيئا حفظه۔

(حدیث نمبر:۱۲۹۲، ج:۲، ص:۱۰،ط:دارا؛لکتب العلمیۃ)

و فی ’’قواعدفی علوم الحدیث‘‘ لعلامۃ ظفر العثمانی:

والمرسل: ما حذف من آخر إسناده، وهو قول التابعي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كذا، أو فعل كذا. وقد يطلق الإرسال على الحذف مطلقا في أي موضع كان.

(ص:۳۹، ط:ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ)

وفی تدریب الراوی:

وقال ابن جرير: وأجمع التابعون بأسرهم على قبول المرسل، ولم يأت عنهم إنكاره، ولا عن أحد من الأئمة بعدهم إلى رأس المائتين.

(ج:۱، ص۲۲۳ ٫ ط :دارطیبۃ)

و فی تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلاني :

وقال بن المديني مرسلات الحسن إذا رواها عنه الثقات صحاح ما أقل ما يسقط منها۔وقال أبو زرعة كل شيء يقول الحسن قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وجدت له أصلا ثابتا ما خلا أربعة أحاديث۔

(ج:۲،ص:۲۶۶ ، ط: مطبعة دائرة المعارف النظامية)

وفی تهذيب الكمال في أسماء الرجال لعلامۃالمزی:

عن يونس بن عبيد، قال: سألت الحسن، قلت: يا أبا سعيد إنك تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنك لم تدركه؟ قال: يا ابن أخي لقد سألتني عن شيء ما سألني عنه أحد قبلك، ولولا منزلتك مني ما أخبرتك، إني في زمان كما ترى - وكان في عمل الحجاج - كل شيء سمعتني أقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهو عن علي بن أبي طالب، غير أني في زمان لا أستطيع أن أذكر عليا.

(ج:۶، ص:۱۲۶،ط: مؤسسة الرسالة)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6914