"جس نے شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا" اس حدیث کی تحقیق اور مفہوم

سوال کا متن:

جو شخص شہرت کے لیے کپڑے پہنے گا، اللہ اس کو قیامت کے دن رسوائی کے کپڑے پہنائے گا اور اس میں آگ بھڑکائے گا۔ (ابن ماجہ) مفتی صاحب ! مندرجہ بالا حدیث کی تصدیق فرمادیں۔

جواب کا متن:

سوال میں مذکور حدیث سند صحیح سے ثابت ہے اور حدیث کی مشہور کتب میں سے سنن ابن ماجہ، سنن أبی داود، سنن نسائی اور مسند احمد میں مذکور ہے۔
ذیل میں سنن ابن ماجہ کی روایت کو سند ومتن اور ترجمہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:

حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ الْمُهَاجِرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: "مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا".

(سنن ابن ماجہ: كِتَابُ اللِّبَاسِ/ بَابُ مَنْ لَبِسَ شُهْرَةً مِنَ الثِّيَابِ، رقم الحدیث: 3607)


ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا میں نمائش اور شہرت کا لباس پہنے گا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت ورسوائی کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ بھڑکا دے گا۔

مفہوم حدیث

اس حدیث مبارکہ میں انسان کو ایسے لباس پہننے سے منع فرمایا گیا ہے، جس کو انسان اس نیت سے پہنے کہ لوگوں میں اس کی ایسی شہرت ہو جائے، جیسی شہرت اس لباس کے پہننے والوں کو ملتی ہے، مثلاً فخر و نمائش کے لیے لباس پہنے، یا عابدوں اور زاھدوں جیسا لباس پہنے جبکہ خود زاھد و صوفی نہ ہو، یا مثلاً: خود عام انسان ہو لیکن لباس ایسا پہنے کہ لوگ اسے بڑے منصب والا معزز شخص سمجھیں وغیرہ۔
الغرض شہرت کی نیت سے لباس پہننے پر اس حدیث میں وعید سنائی گئی ہے۔
اب اس "لباس شرت" سے کونسا لباس مراد ہے؟ اس بارے میں علماء کرام سے چار قسم کے اقوال منقول ہیں:

١- بعض علماء کرام کے نزدیک لباس شہرت سے مراد ایسا لباس ہے، جو کہ شرعا اس شخص کے لیے پہننا ہی حرام ہو، مثلا: مرد کے لیے ریشم پہننا وغیرہ۔

٢- بعض علماء کرام کے نزدیک لباس شہرت سے ایسا لباس مراد ہے جسے کوئی فخر و تکبر اور اپنی بڑائی جتانے کے لیے پہنے۔

٣- بعض علماء کرام کے نزدیک ایسا لباس مراد ہے کہ جسے محض تمسخر اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے پہنا جائے۔

٤- بعض علماء کرام کے نزدیک لباس شہرت سے مراد کپڑا نہیں ہے، بلکہ لباس کا لفظ اعمال سے کنایہ ہے، یعنی جو لوگ دکھاوے کے نیک اعمال کرتے ہیں، تو وہ گویا شہرت کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "مرقاۃ المفاتیح" میں دوسرے قول (فخر وتکبر کا لباس) کو راجح قرار دیا ہے۔

ايک اشکال اور اس کا جواب
اشکال:

مذکورہ بالا حدیث میں تو "شہرت والے لباس" سے ممانعت فرمائی گئی ہے، جبکہ سنن الترمذی ميں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : "إن الله يحب أن يرى أثر نعمته على عبده". (بيشك الله تعالى يہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنی نعمتوں کا اثر اپنے بندے پر دیکھے). سنن الترمذي: 4/ 421 (2819)
اس حدیث سے تو اچھے کپڑے پہننے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ ان دونوں احادیث پر کس طرح عمل ہو سکتا ہے؟

جواب :
بخل اور میلا کچیلا ہونا شرعا مذموم ہے اور تکبر، نام ونمود اور دوسروں کو حقیر جاننا یہ بھی نا پسند ہے، چنانچہ جس حدیث میں نعمت کا اثر بندوں پر ظاہر ہونے کی ترغیب دی گئی ہے اس سے مراد کنجوسی اور میلا کچیلا ہونے سے منع فرمایا گیا ہے اور جس حدیث میں "شہرت والے لباس" کی ممانعت فرمائی گئی ہے اس سے مقصود یہی ہے کہ جب کوئی اچھا کپڑا پہنے تو دل میں بڑائی نہ لائے اور نمائش کی نیت سے نہ پہنے اور اللہ تعالى کا شکر بجا لائے.
خلاصہ یہ کہ اگر دل میں غرور نہ ہو اور لوگوں کو حقیر نہ سمجھیں تو ہر لباس پہننا جائز ہے، بلکہ باعث اجر ہے.

نیز واضح رہے کہ اس بات کا تعلق انسان کی نیت سے ہے کہ اس نے وہ لباس شہرت کی غرض سے پہنا ہے، یا ستر پوشی کے لیے، نیت کا تعلق دل سے ہے اور دلوں کا حال الله تعالٰی ہی جانتے ہیں، لہذا اس کا فیصلہ الله تعالٰی ہی کر سکتے ہیں، اس لیے ہمیں کسی شخص کے لباس کو دیکھ کر اسے اس حدیث کا مصداق قرار نہیں دینا چاہیے، بلکہ ہمیں اپنی نیت کی فکر کرنی چاہیے۔


(ماخذہ از: مرقاۃ المفاتیح: ٧/ ٢٧٨٢، رحمة الله الواسعة شرح حجة الله البالغة، و معارف الحدیث، مؤلفہ: مولانا منظور احمد نعمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6909