"خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے" کی وضاحت

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماء محدثین و مفسرین اس مسئلہ میں کہ قرآن مجید فرقان حمید کی دو بالکل واضح آیات (سورہ الزمر آیت نمبر ٤٢ اور سورہ الانعام آیت نمبر٦٠) کا مفہوم یہی سمجھ آتا ہے کہ رات نیند میں روح کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے، نیز صحیح البخاری کی بالکل صحیح السند حدیث 6986 کا مفہوم ہے کہ خواب نبوت کا چھیالیسوں 1/46 حصہ ہے۔ ان دو آیات مبارکہ اور حدیث صحیح کو اگر ملا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے اور یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ رات کو جو خواب دیکھے جاتے ہیں، زندہ اور مردہ لوگوں سے ہماری ملاقاتیں ہوا کرتی ہیں، جبکہ جسم ہمارا بستر ہی پر رہتا ہے، تو یہ دراصل ہماری ارواح رات سوتے وقت جسم کی قید سے آزاد ہو کر گھوم پھر رہی ہوتی ہیں اور جن زندہ لوگوں اور مردہ لوگوں سے خوابوں میں ملاقاتیں ہوا کرتی ہیں، وه صرف خواب ہی نہیں ہوتے، بلکہ حقیقی روحانی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ والله اعلم براہ کرم اس کا تسلی بخش جواب عنایت فرمادیں۔

جواب کا متن:

انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سورۃ انعام آیت نمبر: ٦٠ میں ارشاد باری تعالی ہے۔

وهو الذي يتوفٰىكم باليل ويعلم ما جرحتم بالنهار ”یعنی اللہ تعالیٰ ہر رات میں تمہاری روح کو ایک گونہ قبض کرلیتا ہے، اور پھر صبح کو جگا دیتا ہے تاکہ تمہاری مقررہ عمر پوری کر دے، اور پھر دن میں بھی تم جو کچھ کرتے رہتے ہو وہ سب اس کے علم میں ہے، یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ ہے کہ انسان کے جینے ، مرنے اور مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا ایک نمونہ ہر روز اس کے سامنے آتا رہتا ہے، حدیث میں نیند کو موت کا بھائی فرمایا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ نیند انسان کے تمام قوی کو ایسا ہی معطل کر دیتی ہے جیسے موت۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیند اور پھر اس کے بعد بیداری کی مثال پیش فرما کر انسان کو اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ جس طرح ہر رات اور ہر صبح میں ہر شخص شخصی طور پر مر کر جینے کی ایک مثال کا مشاہدہ کرتا ہے، اسی طرح پورے عالم کی اجتماعی موت اور پھر اجتماعی زندگی کو سمجھ لو، جس کو قیامت کہا جاتا ہے، جو ذات اس پر قادر ہے اس کی قدرت کاملہ سے وہ بھی مستبعد نہیں، اسی لئے آخر آیت میں فرمایا، ثم اليه مرجعكم ثم ينبئكم بما كنتم تعملون ، یعنی پھر تم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تم کو جتلائے گا جو تم عمل کیا کرتے تھے“۔ مراد یہ ہے کہ اعمال کا حساب ہوگا، پھر اس پر جزاء و سزاء ہو گی۔
اسی طرح سورۃ زمر آیت نمبر:٤٢ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جانداروں کی ارواح ہر حال ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیر تصرف ہیں، وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرف خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جاندار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہو جاتی ہے، پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بالکل قبض ہو جائے گی پھر واپس نہ ملے گی۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدن انسانی سےقطع کر دینے کے ہیں، کبھی یہ ظاہرا وباطنا بالکل منقطع کردیا جاتا ہے، اس کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہرا منقطع کیا جاتا ہے، باطنا باقی رہتا ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حس اور حرکت ارادیہ جو ظاہری علامت زندگی ہے، وہ منقطع کر دی جاتی ہے اور باطنا تعلق روح کا جسم کے ساتھ باقی رہتا ہے جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے، اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ روح انسانی کو عالم مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کر کے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے، اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکل ختم ہو جاتی ہے۔

آیت مذکور میں لفظ توفی، بمعنی قبض بطور عموم مجاز کے دونوں معنی پر حاوی ہے۔ موت اور نیند دونوں میں قبض روح کا یہ فرق جو اوپر بیان کیا گیا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ایک قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، انہوں نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے مگر ایک شعاع روح کی بدن میں رہتی ہے جس سے وہ زندہ رہتا ہے اور اسی رابطہ شفاعی سے وہ خواب دیکھتا ہے۔ پھر یہ خواب اگر روح کے عالم مثال کی طرف متوجہ رہنے کی حالت میں دیکھا گیا تو وہ سچا خواب ہوتا ہے، اور اگر اس طرف سے بدن کی واپسی کی حالت میں دیکھا تو اس میں شیطانی تصرفات ہو جاتے ہیں وہ رویاء صادقہ نہیں رہتا، اور فرمایا کہ نیند کی حالت میں جو روح انسانی اس کے بدن سے نکلتی ہے تو بیداری کے وقت آنکھ جھپکنے سے بھی کم مقدار وقت میں بدن میں واپس آ جاتی ہے۔
حدیث شریف میں خواب سے متعلق ہے کہ
عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اقترب الزمان لم تكد رؤيا المؤمن تكذب واصدقهم رؤيا اصدقهم حديثا، ورؤيا المسلم جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة، والرؤيا ثلاث: فالرؤيا الصالحة بشرى من الله، والرؤيا من تحزين الشيطان، والرؤيا مما يحدث بها الرجل نفسه، فإذا راى احدكم ما يكره فليقم فليتفل ولا يحدث بها الناس، قال: واحب القيد في النوم واكره الغل، القيد ثبات في الدين "
(سنن ترمذی، حدیث نمبر:٢٢٧٠)
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہو گا جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔

خواب تین قسم کے ہوتے ہیں، بہتر اور اچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں، اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو کھڑا ہو کر تھوکے اور اسے لوگوں سے نہ بیان کرے“، آپ نے فرمایا: ”میں خواب میں قید (پیر میں بیڑی پہننا) پسند کرتا ہوں اور طوق کو ناپسند کرتا ہوں.
واضح رہے کہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں، مومن کے سچے خواب کو حدیث شریف میں نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہا گیا ہے،لیکن چھیالیسواں حصہ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ خواب دیکھنے والا شرف نبوت میں شریک ہوجاتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نبوت کے چھیالیس یا ستر حصے ہیں۔اور ان میں سے ایک حصہ اچھے خواب بھی ہیں، اگرچہ نبوت اب باقی نہیں رہی مگر اس کا یہ حصہ قیامت تک باقی ہے۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دور نبوت تیئس سال کا ہے اور ان میں پہلے چھ ماہ تک آپ کو محض خواب آیا کرتے تھے۔ جو اس قدر سچے اور حقیقت پر مبنی ہوتے تھے جیسے رات کے اندھیرے کے بعد صبح صادق کاطلوع ہونا چونکہ یہ چھ ماہ تیئس سال کا چھیا لیسواں حصہ ہے اس نسبت سے مومن کے خواب کے متعلق یہ کہا گیا ہے ۔
اور اس حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ خواب کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:

1) اللہ تعالیٰ کی طرف سےالہامات: جو سچے خواب ہیں اور نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔

2) انسانی خیالات: انسان دن بھر جو سوچتا ہے، وہی رات کو خواب میں دکھائی دیتا ہے۔

3) شیطانی خیالات: جن میں عموما فسق و فجور یا گندگیاں نظر آتی ہیں۔

چونکہ ان تینوں کے درمیان فرق کرنے کی کوئی یقینی صورت موجود نہیں، اس لئے شریعت میں خواب حجت اور دلیل نہیں ہیں، لہذا خواب کی بنیاد پرکوئی فیصلہ کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ صرف انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی کے حکم میں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی الصحیح البخاری:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ.
(باب الرؤیا الصالحۃ جزء من ستۃ و اربعین جزا من النبوۃ، رقم الحدیث 6988 ،ج4، ص335، ط دارالکتب العلمیۃ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6879