زمین کے ہر انار میں جنت کے اناروں میں سے ایک دانہ ڈالا جاتا ہے"اس حدیث کی تحقیق

سوال کا متن:

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انار کے ایک دانہ کو اٹھایا اور اس کو کھالیا، ان سے کہا گیا کہ آپ نے یہ کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ زمین کے ہر انار میں جنت کے دانوں میں سے ایک دانہ ڈالا جاتا ہے، شاید یہ وہی ہو۔ ( طبرانی بسند صحیح ) سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث صحیح اور ثابت ہے خواں مرفوعا ہو یا غیر مرفوع ؟

جواب کا متن:

سوال میں مذکور حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا وموقوفا دونوں طرح مروی ہے،
ذیل میں اس حدیث کے مرفوع طرق کو ذکر کر کے اس کے متعلق محدثین کا کلام نقل کیا جاتا ہے:

اس حدیث کو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے "الکامل فی ضعفاء الرجال" میں درج ذیل دو سندوں سے روایت کیا ہے:

15687 - حدثنا روح بن عبد المجيب، حدثنا محمد بن الوليد، حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريح، عن ابن عجلان، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من رمان من رمانكم، إلا وهو يلقح بحبة من رمان الجنة".

15688 - حدثنا زيد بن عبد العزيز، قال: حدثنا محمد بن الوليد، حدثنا أبو عاصم، أخبرنا ابن جريج، عن أبيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.

(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 9/ 411) ترجمۃ محمد بن الوليد بن أبان القلانسي البغدادي.
قال الشيخ: وهذا حديث باطل بأي إسناد كان، الأولى والثانية.
والحدیث ذکرہ ابن الجوزی فی الموضوعات لابن الجوزي (2/ 285) باب فضيلة الرمان بطریقین ، وقال: وفي الطريق الأول عبد السلام بن عبيد.قال ابن حبان: كان يسرق الحديث لا يجوز الاحتجاج به بحال. وفي الطريق الثاني محمد بن الوليد. قال ابن حبان: كان يضع الحديث ويوصله ويسرق ويقلب الاسانيد والمتون.

ترجمہ:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "تمہارے اناروں میں سے ہر انار میں جنتی انار کا ایک دانہ ضرور ہوتا ہے.

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث دونوں سندوں کے اعتبار سے باطل ہے.
اور علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الموضوعات" میں بھی انہی دو سندوں کے ساتھ یہ حدیث نقل فرمائی ہے، اس کے بعد انہوں نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار نہیں دیا اور فرمایا: اس حدیث کے پہلی سند میں راوی عبد السلام بن عبید ہیں، جن کے متعلق ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ احادیث چورى کیا کرتے تھے، ان کی کسی روایت کو بطور دلیل بیان کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے اور دوسری سند میں محمد بن الولید ہیں جن کے متعلق ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ من گھڑت روایات کو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کیا کرتے تھے اور اسانید اور متون میں الٹ پھیر کیا کرتے تھے.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی موقوف روایت اور اس پر محدثین کا کلام:

اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجم الکبیر" میں أبو نعيم الأصبہانى نے "حلیۃ الآولیا" میں اور بیہقی رحمہ اللہ نے "شعب الإیمان" میں موقوفا بیان فرمایا ہے:

10611 - حدثنا أبو مسلم الكشي، ثنا أبو عاصم، عن عبد الحميد بن جعفر، عن أبيه، أن ابن عباس كان يأخذ الحبة من الرمان فيأكلها، قيل له: يا ابن عباس، لم تفعل هذا؟ قال: «إنه بلغني أنه ليس في الأرض رمانة تلقح إلا بحبة من حب الجنة، فلعلها هذه».

(المعجم الكبير للطبراني: 10/ 263)
وكذا رواه أبو نعيم في "الحلية" (1/ 323)، ورواه البيهقي في "شعب الإيمان" (8/ 105) (5559) عن ابن عباس رضي الله عنهما موقوفًا.
والحديث أورده الهيثمي في "المجمع"5/ 59 (8040) كتاب الأطعمة/ باب في الرمان، وقال: رواه الطبراني، ورجاله رجال الصحيح.
وقال ابن عراق الكنانى رحمه الله في "تنزيه الشريعة" 2/ 242: "(42) [حديث] ما من رمانة من رمانكم هذا إلا ويلقح بحبة من رمان الجنة (عد ابن الجوزي) من حديث ابن عباس ولا يصح في الأول محمد بن الوليد بن أبان، وفي الثاني عبد السلام بن عبيد (تعقب) " بأن الحافظ ابن حجر ذكر في اللسان أن ابن حبان ذكر محمد بن الوليد في الثقات وقال ربما أخطأ وأغرب انتهى، ولحديثه شاهد عن ابن عباس موقوفا أخرجه الطبراني (قلت) قال الهيثمي رجاله رجال الصحيح والله تعالى أعلم، وأخرجه البيهقي في الشعب".
وقال السخاوىي في "المقاصد الحسنة " ص: 587 (981): حديث: ما من رمانة من رمانكم هذا إلا وهي تلقح بحبة من رمان الجنة، الديلمي وابن عدي في كامله، عن ابن عباس به مرفوعا، وسنده ضعيف، كما قاله الذهبي في ترجمة محمد بن الوليد بن أبان أبي جعفر القلانسي، راويه عن أبي عاصم عن ابن جريج عن ابن عجلان عن أبيه عن ابن عباس به مرفوعا.
وقال العجلوني في "كشف الخفاء" 2/ 228 (2244): ما من رمانة من رمانكم هذا إلا وهي تلقح بحبة من رمان الجنة2.
رواه الديلمي وابن عدي في "كامله" عن ابن عباس مرفوعا، وسنده ضعيف، كما قاله الذهبي.

ترجمہ:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما انار کا دانہ اٹھا کر کھا لیا کرتے تھے، ان سے عرض کیا گیا: اے ابن عباس آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہما جواب میں فرماتے: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ زمین میں جو بھی انار ہے اس میں جنت کے انار کا ایک دانہ ضرور ہوتا ہے، سو میں اس دانہ کو اٹھا کر اس لیے کھاتا ہوں کہ ہو سکتا یہ دانہ وہی ہو جو جنت کے انار کا ہے.

اس حدیث کے بارے میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے "مجمع الزوائد" میں فرمایا ہے: اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال (راوی) صحیح حدیث کے رجال ہیں.
علامہ ابن عراق الکنانى رحمہ اللہ نے "تنزیہ الشریعۃ" میں ابن عدی اور ابن الجوزی رحمہما اللہ کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان کے اس کلام پر گرفت کی ہے اور کہا ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں اس حدیث کے راوی محمد بن الولید کے متعلق فرمایا ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس راوی کو اپنی کتاب "الثقات" میں ذکر فرمایا ہے اور فرمایا ہے:"محمد بن الولید کبھى کبھى غلطی کر جاتے ہیں اور بعض اوقات عجیب وغریب روایات بیان کر کرتے ہیں". اور اس حدیث کا موقوف طریق بھی ہے جسے طبرانی نے ذکر کیا ہے ، میں کہتا ہوں کہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس موقوف طریق کے راوی وہ ہیں جو صحیح حدیث کے راوی ہوا کرتے ہیں .
حافظ سخاوى رحمہ اللہ نے "المقاصد الحسنۃ" میں اور عجلونی رحمہ اللہ نے "کشف الخفاء" میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے.

خلاصہ کلام:

اس حدیث کو موضوع (من گھڑت) قرار دینا مشکل ہے، البتہ اس کو ضعیف قرار دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حافظ سخاوی اور علامہ عجلونی رحمہما اللہ نے قرار دیا ہے.

واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6637