دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! میرا بیٹا اہلِ حدیث حضرات کے مدرسہ میں حفظ کر رہا ہے، بروزِ اتوار کو وہاں ایک تقریب میں جانا ہوا، وہاں بیٹھے ہوئے خیال آیا کہ یہ لوگ عصر کی نماز مثل اول میں پڑھیں گے، خیر وقت گزر گیا، انہوں نے نماز کے بارے میں اعلان کیا کہ ہم لوگ مشائخ اور علماء کی نگرانی میں ظہر اور عصر اکٹھی پڑھ چکے ہیں، لہذا کسی نے عصر کی نماز پڑھنی ہو تو وہ اوپر کی منزل پر جا کے پڑھ لے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح اکٹھی نمازیں وہ بھی ایک بجے بغیر کسی وجہ کے پڑھنا جائز ہے اور اگر کس حنفی نے بھی پڑھ لی ہو تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ جزاک اللہ خیر

جواب کا متن:

ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑهنا فرض ہے، نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :
﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا
(النساء:۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔

ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے، اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، بلکہ ایک حدیث میں نبی صلی الله عليه وسلم نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں بلا عذر پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو، وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے؟

لما فی الترمذی:
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

لہذا معلوم ہوا کہ دو وقتوں کی نماز کو ایک ہی وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سفر وغیرہ میں ایک نماز اپنے وقت کے آخر میں اور دوسری نماز اپنے وقت کے شروع میں پڑهی جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل


کذا فی الدر مع الرد:

'' (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.
(ج1، ص 382/381، سعید، کراچی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6957