غیر مشروط تفویض طلاق کا حکم اور حق مہر کا حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، اگر بوقت نکاح یا بعد از نکاح، بیوی کو طلاق کا اختیار بلا کسی شرط تفویض کردیا گیا ہو تو بیوی وہ حق کیسے اور کن صورتوں میں استعمال کر سکتی ہے؟ آیا ایسی طلاق میں بیوی بھی اگر مذاق میں یا بلا وجہ/عذر خود کو طلاق دیتی ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟ ایسی طلاق کی صورت میں حق مہر کی ادائیگی وغیرہ کی کیا صورت ہو گی؟ جزاک اللہ

جواب کا متن:

1- صورت مسئولہ میں اگر شوہر نے غیر مشروط طور پر طلاق کا اختیار اپنی بیوی کو دیدیا ہے، تو بیوی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ جب چاہے (غصہ میں یا ہنسی مذاق میں) اپنے اوپر طلاق واقع کر کے شوہر کے نکاح سے علیحدہ ہو سکتی ہے، لیکن طلاق کا اختیار دینے کے باوجود بھی شوہر کے پاس طلاق کا اختیار برقرار رہتا ہے۔

2- مہر بیوی کا ایسا حق ہے کہ اس کی رضامندی کے بغیر معاف نہیں ہوسکتا ہے، اس کا ادا کرنا شوہر پر بہر صورت لازم اور ضروری ہے، حتی کہ مہر ادا کیے بغیر شوہر انتقال کر جائے، تو تجہیز و تکفین کے بعد ترکہ کی تقسیم سے پہلے بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا، لہذا تفویض طلاق کے باوجود بھی حق مہر شوہر کے ذمہ لازم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی سنن ابن ماجہ:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَيِّدِى زَوَّجَنِى أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِى وَبَيْنَهَا. قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: الْمِنْبَرَ فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجَ عَبْدَهُ أَمَتَهُ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ»".

(سنن ابن ماجه، كتاب الطلاق، باب طلاق العبد، رقم: 2072)


وفی الدر المختار مع رد المحتار:

"قال لها أنت طالق إن شئت فقالت شئت إن شئت أنت، فقال: شئت ينوي الطلاق أو قالت شئت إن كان كذا لمعدوم) أي لم يوجد بعد كإن شاء أبي أو إن جاء الليل وهي في النهار (بطل) الأمر لفقد الشرط..(وإن قالت شئت إن كان الأمر قد مضى) أراد بالماضي المحقق وجوده كإن كان أبي في الدار وهو فيها، أو إن كان هذا ليلا وهي فيه مثلا (طلقت) لأنه تنجيز (قال لها أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت فردت الأمر لا يرتد ولا يتقيد بالمجلس ولا تطلق) نفسها".


(ج:٣,ص:٣٦,ط: دار الفكر)

وفي المحيط البرهاني:

والأصل في هذا: أن الزوج يملك إيقاع الطلاق بنفسه فيملك التفويض إلى غيره فيتوقف عمله على العلم؛ لأن تفويض طلاقها إليها يتضمن معنى التمليك، لأنها فيما فوض إليها من طلاقها عاملة لنفسها دون الزوج، والإنسان فيما يعمل لنفسه يكون مالكا".

(المحيط البرهاني: ج٣,ص: ٢٣٩,ط:دار الكتب العلمية)

(وکذا فی فتاوی دارالعلوم دیوبند: رقم الفتوی:1321-1351)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :7731