نمازی رکعات کی تعداد اور دعائے قنوت بھول جائے، تو کیا حکم ہے؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! مجھے نماز میں بھول جانے کی بیماری ہوگئی ہے، کبھی رکعتوں کی تعداد بھول جاتی ہوں، تو کبھی وتر میں دعائے قنوت پڑھنا بھول جاتی ہوں، اور کبھی پڑھ لیتی ہوں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پڑھی، اور کبھی فرض پڑھ کر اس کا اعادہ کر لیتی ہوں، براہ کرم مجھے اس سے چھٹکارے کا حل بتادیں۔

جواب کا متن:

1ـ رکعات کی تعداد میں بھول جانے یا شک کی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ بھولنا پہلی مرتبہ ہوا ہے، تو دوبارہ نئے سرے سے نماز پڑھے۔
اگر یہ شک (بھولنا) بار بار ہوتا ہے، تو پھر غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے، یعنی جتنی رکعتیں غالب گمان سے یاد ہوں، اسی قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے، اور اگر غالب گمان بھی کسی جانب نہ ہو، تو اس صورت میں کمی کی جانب کو اختیار کرے، مثلاً: ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو، تو تین رکعتیں شمار کرکے چوتھی رکعت پڑھے، اسی طرح دو یا ایک رکعت میں شک ہوجائے اور کسی طرف غالب گمان نہ ہو، تو اس کو ایک شمارکرے اور بقیہ رکعتیں پڑھ کر نماز مکمل کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلے۔

2ـ وہم و شک کا اعتبار نہیں ہے، بلکہ غلبہ ظن کا اعتبار ہے، لہذا اگر دعائے قنوت پڑھنے کا غلبہ ظن ہو، تو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نماز ہوجائے گی اور اگر یہ غلبہ ظن ہو کہ دعائے قنوت نہیں پڑھی ہے، تو پھر سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔

واضح رہے کہ شریعت نے جہاں ہمیں بہت سی چیزوں میں احتیاط سے کام لینے کا حکم دیا ہے٬ وہاں یہ تعلیم بھی دی ہے کہ شک کی طرف بھی توجہ نہ دی جائے، بلکہ جو پہلو یقینی یا غالب گمان کے مطابق ہو، اسی کو اختیار کیا جائے، کیوں کہ یقین کے مقابلے میں شک کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے٬ اس لئے محض شک یا وہم کی وجہ سے پریشان نہ ہوا کریں، اسے کوئی اہمیت نہ دیں٬ اوپر بیان کی گئی تفصیل کے مطابق یقین یا غالب گمان والے پہلو کے مطابق عمل کرلیا کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی الشامیۃ:

(ولونسیہ) أی القنوت( ثم تذکرہ فی الرکوع لایقنت) فیہ لفوات محلہ (ولایعود الی القیام) فی الاصح لان فیہ رفض الفرض للواجب (فان عادالیہ وقنت ولم یعدا لرکوع لم تفسد صلا تہ)لکون رکوعہ بعدقراء ۃ تامۃ..(وسجد للسہو)قنت اولا لزوالہ عن محلہ۔

(ج:1، ص:9، 10، ط: سعید)

وفی الھندیۃ:

من شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وكان ذلك أول ما عرض له استأنف الصلاة، كذا في السراج الوهاج ثم الاستقبال لا يتصور إلا بالخروج عن الأول وذلك بالسلام أو الكلام أو عمل آخر مما ينافي الصلاة، والسلام قاعدا أولى ومجرد النية يلغو ولا يخرج من الصلاة، كذا في التبيين.
ثم اختلف المشايخ في معنى قوله أول ما عرض له قال بعضهم: إن السهو ليس بعادة له لا أنه لم يسه في عمره قط وقال بعضهم: معناه أنه أول سهو وقع له في تلك الصلاة والأول أشبه، كذا في المحيط، وإن كثر شكه تحرى وأخذ بأكبر رأيه، كذا في التبيين.
وإن لم يترجح عنده شيء بعد الطلب فإنه يبني على الأقل فيجعلها واحدة فيما لو شك أنها ثانية وثانية لو شك أنها ثالثة وثالثة لو شك أنها رابعة وعند البناء على الأقل يقعد في كل موضع يتوهم أنه محل قعود فرضا كان القعود أو واجبا كي لا يصير تاركا فرض القعدة أو واجبها۔۔۔۔۔۔۔۔وإذا شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وتفكر في ذلك كثيرا ثم استيقن أنه صلى ثلاث ركعات فإن لم يكن تفكره شغل عن أداء ركن بأن يصلي ويتفكر فليس عليه سجود السهو وإن طال تفكره حتى شغله عن ركعة أو سجدة أو يكون في ركوع أو سجود فيطول تفكره في ذلك وتغير عن حاله بالتفكر فعليه سجود السهو استحسانا، هكذا في المحيط.

(ج: 1، ص: 130، ط: دار الفکر)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8131