کیا قرآن کریم پڑھانے پر اجرت (تنخواہ) لینا جائز ہے؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! کیا قرآن پڑھانے پر اجرت لینا جائز ہے؟

جواب کا متن:

پہلے زمانہ میں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے بیت المال سے وظائف جاری کیے جاتے تھے، جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے تھے، لیکن جب بعد میں یہ سلسلہ بند ہوگیا، تو متاخرین علماء نے اجازت دی کہ قرآن کریم اور دینی تعلیم پڑھانے والے مدرسین، ائمہ اور مؤذنین حضرات اپنی دینی خدمات پر اجرت لے سکتے ہیں، یہ اجازت اس لئے دی تاکہ دین اور دینی شعائر محفوظ رہ سکیں، ورنہ مذکورہ حضرات طلبِ معاش کے لئے مصروف ہوجاتے، اور اس کے نتیجہ میں دین اور دینی شعائر ضائع ہوجاتے، نیز واضح رہے کہ یہ اجرت ان کی دینی خدمات کی نہیں، بلکہ ان کے ان اوقات کی ہے، جو وہ دینی خدمات میں صرف کر رہے ہیں، لہذا اگر کوئی شخص قرآن پاک پڑھانے پر اجرت لے، تو اس کے لئے اجرت لینا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی الدر المختار مع رد المحتار:

"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.

(قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".

(ج:6،ص:55،ط:دار الفکر)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8130