سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ سودی بینک میں ایسی ملازمت کرنا جس کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے ہو، جیسے: مینیجر، کیشیئر وغیرہ، ایسی ملازمت اور اس کی تنخواہ لینا ناجائز اور حرام ہے، جبکہ وہ بینک جو غیر سودی ہیں اور مستند علماء کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں، (جیسے ہماری معلومات کی حد تک میزان بینک یا بینک اسلامی وغیرہ) ایسے بینک میں ملازمت اختیار کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما قال اللہ تعالیٰ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔
(سورۃ البقرة، الایة: 279,278)
ولما فی الصحیح لمسلم:
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
(ج: 2، ص: 227)
وفی الھدایۃ:
"ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح، وكذا سائر الملاهي"؛ لأنه استئجار على المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد.
(ج: 3، ص: 238، ط: دار احیاء التراث العربی)
وفی البحر الرائق:
قال - رحمه الله - (ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجرة من غير أن يستحق عليه؛ لأن المبادلة لا تكون إلا عند الاستحقاق وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه
(ج: 8، ص: 23، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ:
الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة وعقدها باطل لا يستحق به أجرة.
(ج: 1، ص: 290، ط: دار السلاسل)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی