کسی کو کاروبار کے لیے ادھار رقم دیکر ماہانہ طے شدہ اضافی رقم لینے کا شرعی حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے۔ عرض یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی کو 15000 ہزار روپے کاروبار کرنے کے لیے اس شرط پر ادھار دیئے کہ وہ ہر ماہ 1500 روپے اس کو منافع میں سے دیگا، باقی جو منافع ہو، وہ خود رکھے گا، پھر چاہے منافع ہو یا نا ہو، 1500 سو لازمی دینے ہیں۔ کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ ادھار رقم دیکر اس پر اضافی رقم لینا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے٬ اس سے اجتناب لازم ہے۔

نیز اگر یہ رقم ادھار (قرض) کے طور پر نہ دی ہو٬ بلکہ کاروبار میں شراکت کے طور پر دی ہو٬ تو بھی یہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے٬ کیونکہ مذکورہ معاملہ میں نفع کی مقدار متعین طور پر (1500روپے) طے (fix) کی گئی ہے٬ جبکہ شراکت داری میں ضروری ہے کہ کاروبار سے حاصل شدہ نفع فیصد/حصص کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے کہ اس کاروبار سے جتنا نفع ہوگا، اس کا اتنا فیصد فلاں فلاں شریک کا ہوگا۔

نیز مذکورہ صورت میں نفع کی طے شدہ مقدار (1500) ہر صورت میں دینے کو لازمی قرار دیا گیا ہے٬ چاہے کسی مہینے منافع حاصل ہوں یا نہ ہوں٬ جبکہ شراکت کا کاروربار شرعی طور پر نفع و نقصان میں شرکت پر مبنی ہوتا ہے٬ نفع ہو یا نہ ہو٬ ہر صورت میں متعین رقم ( 1500) دینے کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔

لہذا مذکورہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے٬ اس کا جائز متبادل حل یہ ہے کہ کاروبار سے حاصل شدہ نفع کی تقسیم کو فیصدی تناسب سے طے کیا جائے، (جو کہ باہمی رضامندی سے کم و بیش ہوسکتا ہے) اور اگر کسی مہینے نفع نہ ہو، تو کوئی فریق رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

قال اﷲ تعالیٰ:

"أحل اﷲ البیع وحرم الربوا "

[سورۃ البقرۃ، الآیۃ: ۲۷۵]

وفی المصنف لعبد الرزاق:

"ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﻀﺎﺭﺑﺔ: «الوضیعۃ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺎﻝ، ﻭاﻟﺮﺑﺢ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ اﺻﻄﻠﺤﻮا ﻋﻠﻴﻪ» ﻭﺃﻣﺎ اﻟﺜﻮﺭﻱ ﻓﺬﻛﺮﻩ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺼﻴﻦ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﻀﺎﺭﺑﺔ، ﺃﻭ اﻟﺸﺮﻛﻴﻦ"

( رقم الحديث : 15087)

و في الفتاوی الھندیۃ :

" وﺇﻥ ﻗﻞ ﺭﺃﺱ ﻣﺎﻝ ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ ﻭﻛﺜﺮ ﺭﺃﺱ ﻣﺎﻝ اﻵﺧﺮ ﻭاﺷﺘﺮﻃﺎ اﻟﺮﺑﺢ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﺴﻮاء ﺃﻭ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﻔﺎﺿﻞ ﻓﺈﻥ اﻟﺮﺑﺢ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﺸﺮﻁ، ﻭاﻟﻮﺿﻴﻌﺔ ﺃﺑﺪا ﻋﻠﻰ ﻗﺪﺭ ﺭءﻭﺱ ﺃﻣﻮاﻟﻬﻤﺎ"

(ج : 2، ص : 320، ط : دارالفکر)

وفی بدائع الصنائع:

"وشرط الوضیعۃ علیہما شرط فاسد؛ لأن الوضیعۃ جزء ہالک من المال فلا یکون إلا علی رب المال".

(کتاب المضاربۃ ۸٦/٦ ط. دار الكتب العلمية)

وفی الدر المختار مع الشامی:

"وإن لم یظہر ربح فلا شيء علیہ (أي المضارب)"

( فصل في المتفرقات ٦٥۸/٥ ط. دار الفکر٬ بیروت)

و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8238