سید کو گالی دینا اور غیبت کرنا

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! مسئلہ یہ ہے کہ سید قریشی خاندان کے ساتھ تعلقات رہتےہیں، بہت حد تک میل جول رہتا ہے، اس کے علاوہ رشتہ داریاں بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپس کے تعلقات کی وجہ سے سید حضرات کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غیبت، گالی گلوچ تک بعض اوقات بات چلی جاتی ہے، ذہن میں سوچ آتی ہے کہ سید تو آل رسول پاک ہیں، ان کے ساتھ اس طرح کے رویہ کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے ساتھ بغض کے ضمرے میں آئے گا؟ اس گناہ کی تلافی کیسے کریں؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ غیبت، گالم گلوچ اور برائی تو ہر مسلمان کی حرام ہے، چہ جائیکہ سادات کی ہو، لہذا آپ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ان سادات کا احترام کرنا ضروری ہے، اس لیے آپ کو چاہیے کہ آپ نے جو اپنے عمل (غیبت، گالم گلوچ) سے سادات کو تکلیف پہنچائی ہے، اس پر صدق دل سے توبہ کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کذا فی القرآن الکریم:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ

(آیت: 12)

کذا فی الصحیح البخاری:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:سِباب الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ۔ تَابَعَهُ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ .

(رقم الحدیث:6044)

کذا فی الصحیح المسلم:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِئِ مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ

(رقم الحدیث:6591)

کذا فی مجمع الانھر:

ﻭﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﻟﻠﻌﺎﻟﻢ ﻋﻮﻳﻠﻢ ﺃﻭ ﻟﻌﻠﻮﻱ ﻋﻠﻴﻮﻱ ﻗﺎﺻﺪا ﺑﻪ اﻻﺳﺘﺨﻔﺎﻑ ﻛﻔﺮ.

(ج:1، ص:295، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8237