"اگر میں فلاں کام کروں تو جب جب میں شادی کروں تو میری بیوی کو طلاق" کہنے کا حکم

سوال کا متن:

میں نے دو مختلف امور میں معلق قسم کھائی تھی، پہلی یہ کہ اگر میں فلاں کام کروں تو میں جب کبھی شادی کروں، میری بیوی کو طلاق، دوسری کلما کی کہ اگر میں فلاں کام کروں تو جب جب میں شادی کروں، میری بیوی کو طلاق۔ بد قسمتی اور بے عقلی کے نتیجے میں مجھ سے وہ کام سرزد ہو گئے، برائے مہربانی دونوں صورتوں کا کفارہ اور حل بتا دیجیے۔ نیز ہمارے علاقے کے ایک عالم دین نے مسئلہ بتایا ہے کہ اگر آپ کسی شافعی المسلک کو حکم بنائیں اور وہ اپنے مسلک کے مطابق آپ کا فیصلہ کر دے تو آپ کی یہ قسم لغو ہو جائے گی۔ بحوالہ قدوری و ہدایہ۔ اگر یہ ممکن ہے تو برائے مہربانی اس کی تفصیل ذکر فرما دیجئے ۔ چونکہ یہ مسئلہ بندے کا ذاتی ہے اور گھر میں کسی کو اس کا علم نہیں۔ تو کسی فضولی کے ذریعہ نکاح کروانا ممکن ہو گا۔

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں قسم اٹھانے والے نے جس کام پر طلاق کو معلق کیا تھا، وہ کام کر لیا ہے، لہذا جب بھی نکاح کرے گا تو طلاقیں واقع ہو جائیں گی، اب نکاح کرنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص فضولی بن کر اس کا نکاح کرادے، اور اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کر کے اس کو اطلاع دے دے کہ میں نے تمہارا نکاح فلاں سے کرادیا ہے، تم اپنی بیوی کے پاس جاسکتے ہو، تو یہ شخص زبان سے کچھ نہ کہے، بالکل خاموش رہے اور بیوی کے پاس جائے اور مہر ادا کردے یا تحریری اجازت دے دے، تو ایسی صورت میں اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی اور نکاح درست ہو جائے گا اور تحریری اجازت یا مہر بھیجنے سے پہلے اگر کسی نے نکاح کی مبارکباد دی، تو اس پر خاموشی بھی زبانی اجازت کے حکم میں ہے، یعنی طلاق واقع ہوجائے گی، تو ایسے موقع پر یہ تدبیر کی جا سکتی ہے کہ مبارک باد دینے والے کو یوں جواب دے کہ "میں ابھی اس پر غور کر رہا ہوں"۔

مستفاد از احسن الفتاوی:
(ج:۵، ص:۱۷۶، ط: ایچ ایم سعید)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:


لمافی الھدایۃ:

" وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح مثل أن يقول لامرأة إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق "۔۔۔۔ " وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق " وهذا بالاتفاق لأن الملك قائم في الحال والظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط فيصح يمينا أو إيقاعا " ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك " لأن الجزاء لا بد أن يكون ظاهرا ليكون مخيفا فيتحقق معنى اليمين وهو القوة والظهور بأحد هذين والإضافة إلى سبب الملك بمنزلة الإضافة إليه لأنه ظاهر عند سببه " فإن قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق ثم تزوجها فدخلت الدار لم تطلق " لأن الحالف ليس بمالك ولا أضافه إلى الملك أو سببه ولا بد من واحد منهما.

(ج:۱،ص:۲۴۴،ط: دار احياء التراث العربي)

وفى بدائع الصنائع:

ولو عقد اليمين على التزوج بكلمة كلما فطلقت ثلاثا بكل تزوج ثم تزوجها بعد زوج آخر طلقت؛ لأنه أضاف الطلاق إلى الملك، والطلاق المضاف إلى الملك يتعلق بوجود الملك

(ج:٣،ص:٢٣،ط:دار الكتب العلمية)


وفی الشامیۃ:

مطلب حلف لا يتزوج فزوجه فضولي
(قوله فأجاز بالقول) كرضيت وقبلت نهر وفي حاوي الزاهدي لو هنأه الناس بنكاح الفضولي فسكت فهو إجازة (قوله حنث) هذا هو المختار كما في التبيين وعليه أكثر المشايخ والفتوى عليه كما في الخانية وبه اندفع ما في جامع الفصولين من أن الأصح عدمه بحر (قوله وبالفعل) كبعث المهر أو بعضه بشرط أن يصل إليها وقيل الوصول ليس بشرط نهر وكتقبيلها بشهوة وجماعها لكن يكره تحريما لقرب نفوذ العقد من المحرم بحر.
قلت: فلو بعث المهر أولا لم يكره التقبيل والجماع لحصول الإجازة قبله (قوله ومنه الكتابة) أي من الفعل ما لو أجاز بالكتابة لما في الجامع حلف لا يكلم فلانا أو لا يقول له شيئا فكتب إليه كتابا لا يحنث، وذكر ابن سماعة أنه يحنث نهر (قوله به يفتى) مقابله ما في جامع الفصولين من أنه لا يحنث بالقول كما مر فكان المناسب ذكره قبل قوله وبالفعل أفاده ط (قوله لاستنادها) أي الإجازة لوقت العقد وفيه لا يحنث بمباشرته ففي الإجازة أولى بحر.

(ج:۳،ص:۸۴۶،ط:دارالفکر)

و فى الهندية:

ولو دخلت كلمة كلما على نفس التزوج بأن قال: كلما تزوجت امرأة فهي طالق أو كلما تزوجتك فأنت طالق يحنث بكل مرة وإن كان بعد زوج آخر هكذا في غاية السروجي.

(ج:١، ص: ٤٤٥، ط: دارالفكر)

وفی مجمع الانھر:

(ففي جميعها) أي جميع الألفاظ (إذا وجد الشرط انتهت اليمين) ؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة فبوجود الفعل مرة يتم الشرط وإذا تم وقع الحنث فلا يتصور الحنث مرة أخرى إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين وليس فليس.۔۔۔۔ لا في) كلمة (كلما فإنها تنتهي) اليمين (فيها بعد الثلاث)۔۔۔۔ (ما لم تدخل) تلك الكلمة (على) صيغة (التزوج) لدخولها على سبب الملك (فلو قال) تفريع لما قبله (كلما تزوجت امرأة فهي طالق تطلق بكل تزوج، ولو) وصلية (بعد زوج آخر) ؛ لأن صحة هذا اليمين باعتبار ما سيحدث من الملك وهو غير متناه. ، والحيلة فيه عقد الفضولي أو فسخ القاضي الشافعي،وكيفية عقد الفضولي أن يزوجه فضولي فأجاز بالفعل بأن ساق المهر ونحوه لا بالقول فلا تطلق، بخلاف ما إذا وكل به لانتقال العبارة إليه
(ج:۱،ص:۴۱۹،ط: دار إحياء التراث العربي)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8230