بچوں اور قرآن کی قسم کھانا

سوال کا متن:

السلام علیکم، میں نے اپنی بیٹی اور قرآن کی قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جاؤں گا، لیکن شاید مجھے اپنی فیملی کے ساتھ جانا پڑے، تو اس کا کفارہ کیا ہوگا؟ کیونکہ اس ٹائم میں نے غصے میں دونوں کی قسم کھائی ہے۔

جواب کا متن:

یاد رہے کہ بچوں کی قسم کھانا شریعت میں جائز نہیں ہے، بلکہ گناہ ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اسی طرح قرآن کی قسم بھی نہیں کھانی چاہیے، لیکن اگر کسی نے قرآن کی قسم کھالی ہے، تو اس کی قسم منعقد ہوجائے گی، اور اس قسم کو توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔

قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے، یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے، اور اگر قسم کھانے والا غریب ہے اور مذکورہ امور میں سے کسی پر اس کو استطاعت نہیں ہے، تو پھر کفارہ قسم کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ:(53/2، ط: دار الفکر)
مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ لَمْ يَكُنْ حَالِفًا كَالنَّبِيِّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -، وَالْكَعْبَةِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ.

الدر المختار: (3/712، ط: ایچ ایم سعید)
ولا یقسم بغیر اللّٰہ تعالیٰ کالنبي والقرآن والکعبۃ، قال الکمال: ولا یخفی أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فیکون یمینًا۔

القرآن الکریم:(المائدہ، رقم الایۃ:89)
لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8377