فوت شدہ نمازوں کی قضا کا شرعی حکم اور اس کا قرآن و احادیث سے ثبوت

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! کیا قضاء نمازیں ادا کرنے کی قرآن میں کہیں کوئی تاکید ہے اور اس کے متعلق احادیث میں کوئی بات کہی گئی ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب کا متن:

جس مسلمان نے اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے  نمازیں نہ پڑھی ہوں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر نادم ہوکر توبہ کرے اور ان فوت شدہ نمازوں کی قضا کرے۔

اگر اسے ان فوت شدہ نمازوں کی تعداد یاد نہ ہو تو اسے چاہیے کہ خوب اچھی طرح سوچ کر ایک محتاط حساب کے مطابق اندازہ لگا کر اپنی فوت شدہ نمازیں ادا کرنا شروع کریں، یہاں تک کہ اس کو یقین ہوجائے کہ اب میرے ذمہ کوئی قضاء نماز باقی نہیں ہے، مثلاً ایک شخص چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہوا، اور اس نے پانچ چھ سال تک نماز نہیں پڑھی، یا کبھی پڑھی اور کبھی نہیں پڑھی اور یہ مدت اس شخص کے غالب گمان میں مثلاً پانچ سال کی ہوئی ، تو اس شخص کو اپنے غالب گمان کے مطابق اتنے ہی سالوں کی نماز قضا کرنا ضروری ہوگا۔

آسانی کی غرض سے علماء کرام نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ ہر وقتی فرض نماز کے ساتھ ایک قضا نماز بھی ادا کرلی جائے، تاکہ قضا نمازوں کی ادائیگی بھی آہستہ آہستہ ہوتی رہے، البتہ یہ طریقہ لازمی اور ضروری نہیں ہے، بلکہ جس قدر جلدی ادا کرسکے ادا کرلے، چنانچہ ایک وقت میں متعدد قضا نمازیں پڑھنا بھی درست ہے۔

قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمان کو اپنے تمام فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنی چاہیے۔

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
"جو شخص کوئی نماز پڑھنا بھول جائے، تو اس پر لازم ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے، وہ نماز پڑھے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں، اللہ کا ارشاد ہے : میری یاد آنے پر نماز قائم کرو"۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:597)

صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ: جب تم میں سے کوئی شخص نماز سے سوجائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے، تو جب بھی اسے یاد آئے وہ نماز پڑھے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "اقم الصلوۃ لذکری" ( میری یاد آنے پر نماز قائم کرو)۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:684)

ان احادیث مبارکہ میں واضح طور پر یہ اصول بیان کردیا گیا ہے کہ جس شخص کی نماز غفلت یا سونے وغیرہ کی وجہ سے چھوٹ جائے تو تنبہ ہونے پر اس کی قضا کرے۔

نیز ان احادیث مبارکہ میں آخر میں قرآن مجید کی آیت ذکر کرکے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ یہ آیت غفلت کی وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضا کو بھی شامل ہے کہ یاد آنے پر ان نمازوں کی قضا کیجائے گی، محض توبہ واستغفار کافی نہیں ہے۔

اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عمل سے بھی اس بات کی تعلیم دی ہے کہ نماز قضا ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی ضروری ہے، محض توبہ واستغفار اور ندامت کافی نہیں ہے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں یہ واقعہ تفصیل سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فوت شدہ تمام نمازوں کی قضا فرمائی۔

اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی مذکور ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً فوت شدہ نماز قضا کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہٴ کرام کے ساتھ غزوہٴ خیبر سے واپس آرہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگہبانی کے لیے متعین فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور آپ بھی سو گئے اور باقی سب حضرات بھی ایسے سوئیں کہ طلوعِ آفتاب تک نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بیدار ہوئے اور گھبرا کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابہٴ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابہٴ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہیے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔
(صحیح مسلم، رقم الحدیث:680)

قضا نمازوں کی ادائیگی سے متعلق یہ موقف صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہی نہیں؛ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، بلکہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کو جمہور علمائے کرام کا موقف قرار دیا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی صحیح البخاری :

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﻭﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻗﺎﻻ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﻤﺎﻡ، ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: "ﻣﻦ ﻧﺴﻲ ﺻﻼﺓ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﺇﺫا ﺫﻛﺮﻫﺎ، ﻻ ﻛﻔﺎﺭﺓ ﻟﻬﺎ ﺇﻻ ﺫﻟﻚ {ﻭﺃﻗﻢ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﺬﻛﺮﻱ} [ﻃﻪ: 14] ، ﻗﺎﻝ ﻣﻮﺳﻰ: ﻗﺎﻝ ﻫﻤﺎﻡ: ﺳﻤﻌﺘﻪ ﻳﻘﻮﻝ: ﺑﻌﺪ: «ﻭﺃﻗﻢ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﻠﺬﻛﺮﻯ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﻭﻗﺎﻝ ﺣﺒﺎﻥ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﻤﺎﻡ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﻧﺲ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﺤﻮﻩ.

(باﺏ ﻣﻦ ﻧﺴﻲ ﺻﻼﺓ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﺇﺫا ﺫﻛﺮ، ﻭﻻ ﻳﻌﻴﺪ ﺇﻻ ﺗﻠﻚ اﻟﺼﻼﺓج:1 ص:122 رقم الحديث:597 ط: دار طوق النجاة)

کذا فیہ ایضاً :

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺴﺪﺩ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﻘﻄﺎﻥ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻫﺸﺎﻡ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﻫﻮ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: " ﺟﻌﻞ ﻋﻤﺮ ﻳﻮﻡ اﻟﺨﻨﺪﻕ ﻳﺴﺐ ﻛﻔﺎﺭﻫﻢ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﻛﺪﺕ ﺃﺻﻠﻲ اﻟﻌﺼﺮ ﺣﺘﻰ ﻏﺮﺑﺖ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻨﺰﻟﻨﺎ ﺑﻄﺤﺎﻥ، ﻓﺼﻠﻰ ﺑﻌﺪ ﻣﺎ ﻏﺮﺑﺖ اﻟﺸﻤﺲ، ﺛﻢ ﺻﻠﻰ اﻟﻤﻐﺮﺏ.

(ﺑﺎﺏ ﻗﻀﺎء اﻟﺼﻼﺓ، اﻷﻭﻟﻰ ﻓﺎﻷﻭﻟﻰج:1 ص:122 رقم الحديث:597 ط: دار طوق النجاة)

کذا فی صحیح مسلم :

ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻟﺠﻬﻀﻤﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻤﺜﻨﻰ، ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺇﺫا ﺭﻗﺪ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﻋﻦ اﻟﺼﻼﺓ، ﺃﻭ ﻏﻔﻞ ﻋﻨﻬﺎ، ﻓﻠﻴﺼﻠﻬﺎ ﺇﺫا ﺫﻛﺮﻫﺎ»، ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﻳﻘﻮﻝ: {ﺃﻗﻢ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﺬﻛﺮﻱ} [ ﻃﻪ: 14].

(باﺏ ﻗﻀﺎء اﻟﺼﻼﺓ اﻟﻔﺎﺋﺘﺔ، ﻭاﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺗﻌﺠﻴﻞ ﻗﻀﺎﺋﻬﺎ،ج:1 ص:477،ط: دار احیاء التراث العربی)

کذا فی صحیح مسلم :

ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺣﺮﻣﻠﺔ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺘﺠﻴﺒﻲ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻳﻮﻧﺲ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺷﻬﺎﺏ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﻴﻦ ﻗﻔﻞ ﻣﻦ ﻏﺰﻭﺓ ﺧﻴﺒﺮ، ﺳﺎﺭ ﻟﻴﻠﻪ ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺩﺭﻛﻪ اﻟﻜﺮﻯ ﻋﺮﺱ، ﻭﻗﺎﻝ ﻟﺒﻼﻝ: «اﻛﻸ ﻟﻨﺎ اﻟﻠﻴﻞ»، ﻓﺼﻠﻰ ﺑﻼﻝ ﻣﺎ ﻗﺪﺭ ﻟﻪ، ﻭﻧﺎﻡ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺃﺻﺤﺎﺑﻪ، ﻓﻠﻤﺎ ﺗﻘﺎﺭﺏ اﻟﻔﺠﺮ اﺳﺘﻨﺪ ﺑﻼﻝ ﺇﻟﻰ ﺭاﺣﻠﺘﻪ ﻣﻮاﺟﻪ اﻟﻔﺠﺮ، ﻓﻐﻠﺒﺖ ﺑﻼﻻ ﻋﻴﻨﺎﻩ ﻭﻫﻮ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺇﻟﻰ ﺭاﺣﻠﺘﻪ، ﻓﻠﻢ ﻳﺴﺘﻴﻘﻆ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﻻ ﺑﻼﻝ، ﻭﻻ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﺣﺘﻰ ﺿﺮﺑﺘﻬﻢ اﻟﺸﻤﺲ، ﻓﻜﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻭﻟﻬﻢ اﺳﺘﻴﻘﺎﻇﺎ، ﻓﻔﺰﻉ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﺃﻱ ﺑﻼﻝ» ﻓﻘﺎﻝ ﺑﻼﻝ: ﺃﺧﺬ ﺑﻨﻔﺴﻲ اﻟﺬﻱ ﺃﺧﺬ - ﺑﺄﺑﻲ ﺃﻧﺖ ﻭﺃﻣﻲ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺑﻨﻔﺴﻚ، ﻗﺎﻝ: «اﻗﺘﺎﺩﻭا»، ﻓﺎﻗﺘﺎﺩﻭا ﺭﻭاﺣﻠﻬﻢ ﺷﻴﺌﺎ، ﺛﻢ ﺗﻮﺿﺄ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺃﻣﺮ ﺑﻼﻻ ﻓﺄﻗﺎﻡ اﻟﺼﻼﺓ، ﻓﺼﻠﻰ ﺑﻬﻢ اﻟﺼﺒﺢ، ﻓﻠﻤﺎ ﻗﻀﻰ اﻟﺼﻼﺓ ﻗﺎﻝ: «ﻣﻦ ﻧﺴﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻠﻴﺼﻠﻬﺎ ﺇﺫا ﺫﻛﺮﻫﺎ»، ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: {ﺃﻗﻢ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﺬﻛﺮﻱ} [ﻃﻪ: 14].

(باﺏ ﻗﻀﺎء اﻟﺼﻼﺓ اﻟﻔﺎﺋﺘﺔ، ﻭاﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺗﻌﺠﻴﻞ ﻗﻀﺎﺋﻬﺎ،ج:1،ص:471، رقم الحدیث: 680، ط: دار احیاء التراث العربی)

کذا فی حاشیۃ الطحطاوی :

ﻣﻦ ﻻ ﻳﺪﺭﻱ ﻛﻤﻴﺔ الفواﺋﺖ ﻳﻌﻤﻞ ﺑﺄﻛﺒﺮ ﺭﺃﻳﻪ ﻓﺈﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﺭﺃﻱ ﻳﻘﺾ ﺣﺘﻰ ﻳﺘﻴﻘﻦ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺒﻖ ﻋﻠﻴﻪ ﺷﻲء۔

(ج:1، ص:157،ط: دارالکتب العلمیة، بیروت۔)

کذا فی حاشیة اﻟﺸﻠﺒﻲ علیﺗﺒﻴﻴﻦ اﻟﺤﻘﺎﺋﻖ :

ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺎﻭﻱ ﻻ ﻳﺪﺭﻱ ﻛﻤﻴﺔ اﻟﻔﻮاﺋﺖ ﻳﻌﻤﻞ ﺑﺄﻛﺒﺮ ﺭﺃﻳﻪ ﻓﺈﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﺭﺃﻱ ﻳﻘﻀﻲ ﺣﺘﻰ ﻳﺴﺘﻴﻘﻦ۔

(ج:1،ص:468،ط: ایچ- ایم سعید کمپنی)

وفی الھندیة:

ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺠﺔ اﻻﺷﺘﻐﺎﻝ ﺑﺎﻟﻔﻮاﺋﺖ ﺃﻭﻟﻰ ﻭﺃﻫﻢ ﻣﻦ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﺇﻻ اﻟﺴﻨﻦ اﻟﻤﻌﺮﻭﻓﺔ ﻭﺻﻼﺓ اﻟﻀﺤﻰ ﻭﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻭاﻟﺼﻠﻮاﺕ اﻟﺘﻲ ﺭﻭﻳﺖ ﻓﻲ اﻷﺧﺒﺎﺭ ﻓﻴﻬﺎ ﺳﻮﺭ ﻣﻌﺪﻭﺩﺓ ﻭﺃﺫﻛﺎﺭ ﻣﻌﻬﻮﺩﺓ ﻓﺘﻠﻚ ﺑﻨﻴﺔ اﻟﻨﻔﻞ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ ﺑﻨﻴﺔ اﻟﻘﻀﺎء، ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﻀﻤﺮاﺕ۔

( ج:1، ص:125،ط:دارالفکر بیروت)

کذا فی مجموع الفتاوی، لابن تیمیہ:

ﻭﻣﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﺎﺋﺘﺔ ﻓﻋﻠﻴﻪ ﺃﻥ ﻳﺒﺎﺩﺭ ﺇﻟﻰ ﻗﻀﺎﺋﻬﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﻔﻮﺭ ﺳﻮاء ﻓﺎﺗﺘﻪ ﻋﻤﺪا ﺃﻭ ﺳﻬﻮا ﻋﻨﺪ ﺟﻤﻬﻮﺭ اﻟﻌﻠﻤﺎء. ﻛﻤﺎﻟﻚ ﻭﺃﺣﻤﺪ ﻭﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ. ﻭﻛﺬﻟﻚ اﻟﺮاﺟﺢ ﻓﻲ ﻣﺬﻫﺐ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺃﻧﻬﺎ ﺇﺫا ﻓﺎﺗﺖ ﻋﻤﺪا ﻛﺎﻥ ﻗﻀﺎﺅﻫﺎ ﻭاﺟﺒﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﻔﻮﺭ.

(ج:23،ص:259، ط: مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف)

کذا فی فتاوی عثمانی، ج:1،ص:478-486،ط: مکتبہ معارف القرآن

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8272