سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد جو مال بچ جائے، اس کے ایک تہائی (1/3) میں میت کی جائز وصیت کے مطابق عمل کرنا ورثاء پر لازم ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں دو لاکھ روپے کی رقم میت کی دیگر متروکہ رقم اور جائیداد میں شامل کی جائے گی، اور مذکور بالا واجبات کی ادائیگی کے بعد اگر یہ رقم کل ترکہ کی ایک تہائی یا اس سے کم ہو، تو پوری رقم مسجد میں دینا ضروری ہے، اور اگر ایک تہائی حصہ سے زیادہ ہو، تو اس میں سے ایک تہائی کی مقدار رقم مسجد میں دینا لازم ہے، جبکہ باقی رقم ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
القرآن الکریم:(سورۃ النساء،الآیۃ:12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَٰجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ يُوصِينَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۢ ۚ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۢ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَٰلَةً أَوِ ٱمْرَأَةٌ وَلَهُۥٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوٓاْ أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِى ٱلثُّلُثِ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ يُوصَىٰ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّۢ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ.﴿۱۲﴾
الصحیح البخاری: (رقم الحدیث:2744، ط:دار طوق النجاۃ)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻛﺮﻳﺎء ﺑﻦ ﻋﺪﻱ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺮﻭاﻥ، ﻋﻦ ﻫﺎﺷﻢ ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ، ﻋﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺮﺿﺖ، ﻓﻌﺎﺩﻧﻲ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، اﺩﻉ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻻ ﻳﺮﺩﻧﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﻘﺒﻲ، ﻗﺎﻝ: «ﻟﻌﻞ اﻟﻠﻪ ﻳﺮﻓﻌﻚ ﻭﻳﻨﻔﻊ ﺑﻚ ﻧﺎﺳﺎ»، ﻗﻠﺖ: ﺃﺭﻳﺪ ﺃﻥ ﺃﻭﺻﻲ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻟﻲ اﺑﻨﺔ، ﻗﻠﺖ: ﺃﻭﺻﻲ ﺑﺎﻟﻨﺼﻒ؟ ﻗﺎﻝ: «اﻟﻨﺼﻒ ﻛﺜﻴﺮ»، ﻗﻠﺖ: ﻓﺎﻟﺜﻠﺚ؟ ﻗﺎﻝ: «اﻟﺜﻠﺚ، ﻭاﻟﺜﻠﺚ ﻛﺜﻴﺮ ﺃﻭ ﻛﺒﻴﺮ»، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﻭﺻﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺎﻟﺜﻠﺚ، ﻭﺟﺎﺯ ﺫﻟﻚ ﻟﻬﻢ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی