دو لاکھ روپے کی وصیت کی ایک صورت کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب! اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں میرے ایک دوست نے ایک شخص سے تین لاکھ روپے میں ایک پلاٹ خریدا ہے، جس میں ایک لاکھ روپے ادا کر دیے ہیں، باقی دو لاکھ روپے ادا کرنا باقی ہیں، اس دوران پلاٹ بیچنے والا شخص شدید بیمار ہو گیا، وہ شخص کافی غریب تھا، تو میرے دوست نے اس شخص کے علاج میں بھی اس کا تعاون کیا، جب اس کی طبیعت مزید بگڑنے لگی تو میرے دوست نے اس شخص سے پلاٹ کی بقیہ رقم دو لاکھ کے بارے میں پوچھا کہ اگر خدا نخواستہ اگر آپ کا انتقال ہوجاتا ہے تو میں وہ دو لاکھ روپے آپ کے بعد کس کو دوں؟ اس پر اس بیمار شخص نے کہا وہ رقم مسجد میں دیدینا۔ اللّٰہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ شخص انتقال کر گیا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس شخص کی ایک بیوی اور ایک بیٹی جو کہ شادی شدہ ہے، اس کے علاوہ اور ورثاء نہیں ہیں، کیا وہ رقم مسجد میں جمع ہوگی یا وہ رقم اس کے وارثوں کو ملے گی؟ جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

جواب کا متن:


واضح رہے کہ شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد جو مال بچ جائے، اس کے ایک تہائی (1/3) میں میت کی جائز وصیت کے مطابق عمل کرنا ورثاء پر لازم ہے۔

سوال میں ذکر کردہ صورت میں دو لاکھ روپے کی رقم میت کی دیگر متروکہ رقم اور جائیداد میں شامل کی جائے گی، اور مذکور بالا واجبات کی ادائیگی کے بعد اگر یہ رقم کل ترکہ کی ایک تہائی یا اس سے کم ہو، تو پوری رقم مسجد میں دینا ضروری ہے، اور اگر ایک تہائی حصہ سے زیادہ ہو، تو اس میں سے ایک تہائی کی مقدار رقم مسجد میں دینا لازم ہے، جبکہ باقی رقم ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:

القرآن الکریم:(سورۃ النساء،الآیۃ:12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَٰجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ يُوصِينَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۢ ۚ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۢ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَٰلَةً أَوِ ٱمْرَأَةٌ وَلَهُۥٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوٓاْ أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِى ٱلثُّلُثِ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ يُوصَىٰ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّۢ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ.﴿۱۲﴾

الصحیح البخاری: (رقم الحدیث:2744، ط:دار طوق النجاۃ)
 ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻛﺮﻳﺎء ﺑﻦ ﻋﺪﻱ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺮﻭاﻥ، ﻋﻦ ﻫﺎﺷﻢ ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ، ﻋﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺮﺿﺖ، ﻓﻌﺎﺩﻧﻲ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، اﺩﻉ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻻ ﻳﺮﺩﻧﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﻘﺒﻲ، ﻗﺎﻝ: «ﻟﻌﻞ اﻟﻠﻪ ﻳﺮﻓﻌﻚ ﻭﻳﻨﻔﻊ ﺑﻚ ﻧﺎﺳﺎ»، ﻗﻠﺖ: ﺃﺭﻳﺪ ﺃﻥ ﺃﻭﺻﻲ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻟﻲ اﺑﻨﺔ، ﻗﻠﺖ: ﺃﻭﺻﻲ ﺑﺎﻟﻨﺼﻒ؟ ﻗﺎﻝ: «اﻟﻨﺼﻒ ﻛﺜﻴﺮ»، ﻗﻠﺖ: ﻓﺎﻟﺜﻠﺚ؟ ﻗﺎﻝ: «اﻟﺜﻠﺚ، ﻭاﻟﺜﻠﺚ ﻛﺜﻴﺮ ﺃﻭ ﻛﺒﻴﺮ»، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﻭﺻﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺎﻟﺜﻠﺚ، ﻭﺟﺎﺯ ﺫﻟﻚ ﻟﻬﻢ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :8636