سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ مفتی غیب نہیں جانتا، بلکہ وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے، سوال کے سچ یا جھوٹ کی ذمہ داری سائل پر ہوتی ہے، غلط بیانی کے ذریعہ اپنے حق میں فتوٰی حاصل کرلینے سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی، بلکہ حرام معاملہ بدستور حرام ہی رہتا ہے اور غلط بیانی کا مزید وبال اسی پر ہوتا ہے۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً بیوی کے علاوہ شوہر کا کوئی وارث رشتہ دار موجود نہیں ہے، تو اس کا کل مال بیوی کو دیا جائے گا۔
اصولاً تو اولاد اور باقی رشتے دار نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو کل مال کا ایک چوتھائی ملتا ہے، لیکن پوچھی گئی صورت میں چونکہ بیوہ کے علاوہ مرحوم کا کوئی اور وارث موجود نہیں ہے، اس لیے متاخرین فقہاءؒ کے قول کے مطابق باقی مال بھی بیوہ کو ملے گا، اس طرح بیوہ کل مال کی وارث کہلائے گی، پھر وہ اپنے مال میں سے جس کو جتنا چاہے، ہدیہ کے طور پر دے سکتی ہے۔
نوٹ: مکرر واضح ہو کہ اس صورت میں بہت دور کے رشتے دار بھی عصبہ یا ذوی الارحام بن کر وارث ہو سکتے ہیں، اس لیے سب سے پہلے مرحوم کے دیگر ورثاء اور رشتہ داروں کی پوری تحقیق و تفتیش ضروری ہے، کوشش کے باوجود اگر کوئی اور شرعی وارث نہ مل سکے، تو پھر مذکورہ بالا جواب پر عمل کیا جائے گا۔
.....................
الدلائل:
رد المحتار: (6/ 788)
(قوله: وفي الأشباه إلخ) قال في القنية: ويفتى بالرد على الزوجين في زماننا لفساد بيت المال، وفي الزيلعي عن النهاية ما فضل عن فرض أحد الزوجين يرد عليه... وقال في المستصفى: والفتوى اليوم بالرد على الزوجين، وهو قول المتأخرين من علمائنا، وقال الحدادي: الفتوى اليوم بالرد على الزوجين، وقال المحقق أحمد بن يحيى بن سعد التفتازاني: أفتى كثير من المشايخ بالرد عليهما إذا لم يكن من الأقارب سواهما لفساد الإمام وظلم الحكام في هذه الأيام...
وفي المستصفى والفتوى اليوم على الرد على الزوجين عند عدم المستحق لعدم بيت المال إذ الظلمة لا يصرفونه إلى مصرفه.... أقول: ولم نسمع أيضا في زماننا من أفتى بشيء من ذلك ولعله لمخالفته للمتون فليتأمل، لكن لا يخفى أن المتون موضوعة لنقل ما هو المذهب وهذه المسألة مما أفتى به المتأخرون على خلاف أصل المذهب للعلة المذكورة كما أفتوا بنظير ذلك في مسألة الاستئجار على تعليم القرآن مخالفين لأصل المذهب، لخشية ضياع القرآن، ولذلك نظائر أيضا، وحيث ذكر الشراح الإفتاء في مسألتنا فليعمل به، ولا سيما في مثل زماننا فإنه إنما يأخذه من يسمى وكيل بيت المال، ويصرفه على نفسه وخدمه ولا يصل منه إلى بيت المال شيء. والحاصل: أن كلام المتون إنما هو عند انتظام بيت المال وكلام الشروح عند عدم انتظامه، فلا معارضة بينهما فمن أمكنه الإفتاء بذلك في زماننا فليفت به ولا حول ولا قوة إلا بالله.
کذا فی فتاوى دارالعلوم كراچی غير مطبوع: 72/1944
والله تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی