گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر نہیں

سوال کا متن:

کیا کسی بے نماز کو کافر کہہ سکتے ہیں اس بارے میں کسی حدیث یا قرآن کے حوالہ سے راہنمائی فرمائیں؟

جواب کا متن:

جان بوجھ کر نماز کو چھوڑنا (قضا کرنا) شرعاً کبیرہ گناہ ہے اور کبیرہ گناہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں ہوتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو تہدیداً کافر فرمایا ہے تاکہ وہ اس سے بچ سکے۔ (والکبیرۃ غیر الکفر لاتخرج العبد المؤمن من الایمان) لبقاء التصدیق الذی ھو حقیقۃ ۔۔۔ الایمان ........ (ولا تدخلہ) ای العبد المؤمن (فی الکفر) خلافا للخوارج فانھم ذھبوا الی ان مرتکب الکبیرۃ بل الصغیرۃ ایضا کافر۔

(شرح عقائد ص ۷۸)

وہ روایات جن میں یہ الفاظ آئے ہیں بین العبد و بین الکفر ترک الصلوٰۃ۔ رواہ مسلم۔ مشکوٰۃ المصابیح ص ۵۸ یعنی بندہ اور کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنا ہے۔ یا اس قسم کے معنی کی اور روایات جو کتب حدیث میں آتی ہیں ان کے بارے میں حضرات محدثین رحمھم اللہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ اس بات پر محمول ہیں کہ جو اس نماز چھوڑنے کو حلال سمجھے وہ کافر ہے۔ البتہ جو اس کو حلال نہ سمجھے بلکہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس حکم میں داخل نہ ہوگا وہ فاسق ہے۔ ان روایات کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ نماز چھوڑنا کفر تک پہنچا دیتا ہے یا یہ کہ اس کے چھوڑنے والے کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے یا یہ کہ اس نے کافروں والا کام کیا۔

ثم من التاویلات ان یکون مستحلالترکھا اوتر کھایودی الی الکفر ....... اویخشی علی تارکھا ان یموت کافرا او فعلہ شابہ فعل الکافر۔

(مرقات شرح مشکوٰۃ ۲/۱۱۴)

یہ تاویلات محدثین نے اس وجہ سے کی ہیں کہ اور صحیح روایات سے یہ مضمون ثابت ہوتا ہے کہ فاسق شخص کافر نہیں ہوتا مثلاً مشکوٰۃ شریف میں متفق علیہ روایت منقول ہے ’’عن ابی ذرقال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہ ثوب ابیض وھونائم ثم اتیتہ وقد استیقظ فقال مامن عبد قال لا الہ الا اللہ ثم مات علی ذالک الادخل الجنۃقلت وان زنی وان سرق قال وان زنی اوان سرق قلت وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق قلت وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق علی رغم انف ابی ذ ر۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۱/۱۰۰)

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سفید کپڑا تھا اور آپ آرام فرما رہے تھے میں دوبارہ حاضر ہوا تو اس وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی شخص اس کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اور پھر وہ اسی حالت (ایمان) پر فوت ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا میں نے عرض کیا کہ چاہے وہ زنا کرے اور چوری کرے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے وہ زنا کرے اور چوری کرے میں نے دوبارہ دریافت کیا کہ چاہے وہ زنا کرے اور چوری کرے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ چاہے وہ زنا اور چوری کرے میں نے سہ بارہ عرض کیا کہ چاہے وہ زنا اور چوری کرے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے وہ زنا اور چوری کرے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔

اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ففیہ بشارۃ الی ان عاقبتہ دخول الجنۃ وان کان لہ ذنوب جمۃ لکن امرہ الی اللہ ان شاء عفا عنہ وادخلہ الجنۃ ان شاء عذبہ بقدر ذنبہ ثم ادخلہ الجنۃ۔ مرقاۃ ۱/۱۰۰

یعنی اس حدیث میں اس بات کی بشارت ہے کہ انجام کار وہ جنت میں داخل ہوگا چاہے اس پر گناہوں کے انبار ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کا معاملہ اللہ کے قبضے میں ہے چاہے تو معاف فرما دیں اور جنت میں داخل فرما دیں اور چاہیں تو گناہوں کے بقدر سزا دیں اور پھر جنت میں داخل فرمائیں۔

یہ حدیث مبارکہ واضح طور پر دلالت کر رہی ہے اس بات پر کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان اگر ایمان کی حالت میں اس دنیا سے گیا ہے تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا چاہے اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ہی ہو اور یہ بات بھی روزِروشن کی طرح واضح ہے کہ جنت میں کافر کو ہرگز داخل نہیں کیا جائیگا۔ پس معلوم ہوا کہ کبیرہ کا مرتکب فاسق تو ہے کافر نہیں۔ اسی قسم کی روایات کی وجہ سے محدثین نے ان روایات کی تاویل کی جن میں کفر کے الفاظ آئے تھے۔"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :14