تقلیدکی شرعی حیثیت

سوال کا متن:

تقلید کی شرعی حیثیت قرآن و سنت سے بیان کریں،

جواب کا متن:

اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اس لیے واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے احکامِ الٰہی کی ترجمانی فرمائی ہے کہ کونسی چیز حلال، کونسی چیز حرام ہے؟ جو ان تمام معاملات میں خالصۃً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو، اور اس کو مستقل بالذات مطاع سمجھتا ہو وہ یقینا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

لیکن قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں کہ جنہیں ہر معمولی پڑھا لکھا آدمی سمجھ سکتا ہے، ان میں کوئی اجمال، ابہام یا تعارض نہیں ہے بلکہ جو شخص بھی انہیں پڑھے گا وہ کسی الجھن کے بغیر ان کا مطلب سمجھ لے گا۔

اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال پایا جاتا ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن مجید ہی کی کسی دوسری آیت یا دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں یا کچھ ایسے ہیں جن میں ایک سے زائد معنی نکل سکتے ہیں تو ان احکامات سے مسائل کے استنباط میں بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں اب ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کرکے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا ہے؟ چنانچہ قرونِ نزولی کے جن بزرگوں کو ہم علومِ قرآن و سنت کا زیادہ ماہر پائیں ان کی فہم پر اعتماد کرکے اسی کے مطابق عمل کریں۔ اسی کا نام تقلید ہے اور یہی تقلید کی حقیقت ہے۔

قرآن مجید میں ہے: ’’فاسئلوا اھل الذکر إن کنتم لاتعلمون‘‘۔ (النحل ۴۳، الانبیاء ۷)

’’اگر تمہیں علم نہ ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو ........ ‘‘۔

علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ : ’’اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے جس چیز کا علم خود نہ ہو اس کے بارے میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے، علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لیے ضروری مسائل میں تقلید جائز ہے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہؓ سے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہیں کتنا عرصہ تمہارے درمیان رہوں گا؟ پس تم میرے بعد دو شخصوں کی اقتداء کرنا، ایک ابوبکرؓ، دوسرے عمرؓ۔

(رواہ الترمذی و ابن ماجہ و احمد)

مندرجہ بالا حوالوں سے تقلید کا ثبوت واضح طور پر ملتا ہے تفصیلی دلائل کے لیے مذکورہ کتاب کی طرف مراجعت فرمائیں۔ (تقلید کی شرعی حیثیت از حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہ)

(روح المعانی ۱۴/ ۱۴۸ النحل)"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :27