۲۲ اور ۲۳ رجب کے کونڈوں کا حکم

سوال کا متن:

مجھے ۲۲، ۲۳ رجب کے کونڈوں کے متعلق کچھ بتائیں؟

جواب کا متن:

رجب کے کونڈے اور ان کے پس منظر میں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب قصے سراسر گھڑے ہوئے واقعات ہیں، جن کا دین اور ثواب سے دور کا بھی تعلق نہیں، نہ امام جعفر صادقؒ اس تاریخ میں پیدا ہوئے اور نہ اس تاریخ میں ان کی وفات ہوئی اور نہ ہی مذکورہ تاریخ میں ان سے متعلق کوئی واقعہ پیش آیا، علاوہ ازیں دین کا یہ مزاج نہیں کہ کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی زندگی یا وفات وغیرہ کی تواریخ کو بعد میں منانے کے حوالے سے اجازت دی گئی ہو اور اس پر حصول اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو یا اس میں کھانے پینے سے متعلق اس طرح کی رسم کی ترغیب دی گئی ہو، اگر امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ کونڈوں کے متعلق کسی بھی قسم کا کوئی واقعہ ثابت ہوتا تو جہاں امام موصوف کا بچپن گذرا، جوان ہوئے اور وفات پائی وہاں اس کا سب سے زیادہ چرچا ہونا چاہیے تھا، اس کے برعکس وہاں اس طریقہ کو کوئی جانتا بھی نہیں مگر ہزاروں میل دور بیٹھے بے علم لوگوں کو ان باتوں کا کس طرح علم ہو جاتا ہے اور وہ اس رسم کو پہلے چھپ چھپ کر اور اب علانیہ کرنے لگتے ہیں۔

بعض مؤرخین کے مطابق مذکورہ تاریخ میں صحابی رسول کا تب وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور دشمنانِ صحابہ ان کی وفات کی خوشی میں کونڈے پکاتے ہیں، مگر سادہ لوح عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی جانب ان کی نسبت کرتے ہیں اور پس پردہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف اپنے بغض اور دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، اگر صورتحال ایسی ہی ہو تو کونڈے پکانا فقط ایک رسم ہی نہیں بلکہ قبیح ترین فعل ہوگا، جس سے بچنا ہر صاحب ایمان کے لیے لازم ہے۔"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :29