جمعۃ المبارک کی پہلی اذان کا حکم

سوال کا متن:

میں اٹاوہ کینیڈا میں رہتا ہوں یہاں جمعہ کی ایک ہی اذان ہوتی ہے اور خطبہ شروع ہو جاتا ہے حالانکہ قبل ازیں میں دوبئی میں تھا جہاں شافعی مسلک ہے وہاں جمعہ کے روز دو اذانیں ہوتی تھیں۔ میں نے یہاں اسلامک سنٹر والوں سے استفسار کیا تو انہوں نے بس اتنا کہہ دیا کہ ایک یا دو اذان کا کوئی فرق نہیں اور مزید برآں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہ تھا بلکہ بعد میں یہ حضرت عمر فاروقؓ یا حضرت عثمانؓ کے دور سے شروع ہوا مجھے کچھ تسلی نہیں ہوئی اس کے متعلق مجھے تفصیلاً بتائیں بہت بہت شکریہ۔

جواب کا متن:

عن السائب بن یزید یقول ان الاذان یوم الجمعۃ کان اولہ حین یجلس الامام یوم الجمعۃ علی المنبر فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی ابکر و عمر فلما کان فی خلافۃ عثمان و کثروا امر عثمان یوم الجمعۃ بالاذان الثالث فاذن بہ علی الزوراء فثبت الامر علی ذالک۔ (بخاری ۱/۱۲۵ ۔ ابوداؤد ۱/۱۵۵)

حضرت سائب بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا پھر جب حضرت عثمان کا دور آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے تو حضرت عثمان نے ایک اور اذان (جمعہ کی پہلی اذان) کا حکم دیا چنانچہ زوراء پر وہ اذان کہی گئی اور پھر یہ ایک مستقل سنت بن گئی۔

(بخاری ۱/۱۲۵، ابودائود ۱/۱۵۵، نسائی ۱/۱۵۶)

اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ عہد رسالت اور عہد خلافت راشدہ میں سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں جمعہ کی ایک ہی اذان ہوتی تھی جو امام کے سامنے منبر کے پاس دی جاتی تھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ کے دور میں آپ کے حکم سے ایک اذان اور دی جانے لگی۔ یہ اذان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں دی جاتی تھی۔ صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا چنانچہ یہ اذان باجماع صحابہ رائج ہو گئی اور ہر زمانے میں اس پر عمل ہوتا رہا۔ کسی امام اور کسی فقیہ و مجتہد نے اس سے اختلاف نہیں کیا اور اخلاف کر بھی کیسے سکتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ یہ اذان چونکہ خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کے حکم سے جاری ہوئی ہے اس لیے یہ ان کی سنت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس پر عمل ضروری ہے پہلے یہ اذان زوراء پر دی جاتی تھی بعد میں مسجد میں دی جانے لگی آج بھی تمام اسلامی ممالک میں یہ اذان مسجد ہی میں دی جا رہی ہے۔ حج پر جانے والے خوش نصیب حضرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں یہ اذان مسجد ہی میں دی جا رہی ہے اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں دی جا رہی ہے لیکن حدیث اجماع امت اور تعامل و توارث امت کے خلاف جو غیر مقلدین 20 رکعات تراویح کو بدعت قرار دیتے تھے انہوں نے جمعہ کی اس اذان کو بھی بدعت قرار دے دیا ان غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ اذان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اس لیے یہ سنت نہیں ہو سکتی بلکہ بدعت ہے۔ حیرانگی ہے اس بات پر کہ جمعہ کی پہلی اذان جو خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کے حکم سے جاری ہوئی جس پر تمام صحابہ نے اجماع کیا جو چودہ صدیوں سے تمام ممالک اسلامیہ میں بلا نکیر کہی جا رہی ہے جس سے کسی امام اور کسی فقیہ و مجتہد نے اختلاف نہیں کیا آج وہ اذان مسجد میں ہونے کی وجہ سے غیر مقلدین کے دور میں بدعت ہو گئی یا للعجب ولضیعۃ الحیاء والادب۔اگر خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا عمل بھی بدعت ہے اور جس پر ساری امت کا تعامل ہے وہ بھی بدعت ہے تو پھر غیر مقلدین بتائیں کہ سنت کونسا عمل ہوگا؟ نیز اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چودہ صدیوں سے ساری امت بدعت پر عامل رہی اور آج بھی حرمین شریفین کے آئمہ و خدام اس اذان کو مسجد میں کہلوا کر بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں؟

نیز تمام محدثین جو کہ اس مسئلہ پر متفق ہیں وہ غیر مقلدین کے نزدیک بدعتی اور فاسق ہیں اور بدعتی کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی لہٰذا غیر مقلدین کو چاہیے کہ وہ ان محدثین کی روایت کراہ حدیثیں اپنے لیے استدلال میں پیش نہ کریں بلکہ کہیں اور سے روایت لیا کریں۔"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :86