تین کاموں کے صدقہ جاریہ بننے سے متعلق حدیث اور ایصال ثواب پر اشکال کا جواب

سوال کا متن:

جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا ثواب رک جاتا ہے (چونکہ اعمال رک جاتے ہیں) سوائے تین چیزوں کے ایسی چیزیں جن کا پھل اس کو مرنے کے بعد بھی ملتا ہے، علم جو اپنے بعد چھوڑ کر جاتا ہے جس سے عوام کا فائدہ ہو اس کے مرنے کے بعد بھی اور کوئی ایسا بچہ جو اس کی بخشش کے لیے دُعا کرتا رہے۔ مذکورہ عبارت پڑھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہم مرنے والوں کو ایصال ثواب نہیں کر سکتے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب کا متن:

اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ مر جاتا ہے تو مرنے کے بعد وہ بذات خود کوئی عمل نہیں کر سکتا کہ جو اس کو نفع دے سکے۔ لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی ایسا نیک کام کر جائے مثلاً مسجد بنوا دی، مدرسہ بنا دیا یا بچے کو حافظ قرآن، عالم دین بنا دیا یا کوئی رفاہ عامہ کے لیے مکان تعمیر کر گیا ہو تو جب تک یہ چیزیں باقی رہیں گی ان کا ثواب اس کو بھی ملتا رہے گا اور اس طرح اگر کوئی بندہ کسی میت کے لیے اعمال بدنیہ یا مالیہ کا ثواب پہنچائے تو یہ جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کی زندگی میں اس کو ایصال ثواب کرنا جس طرح زندگی میں اس کا ثواب اس کو پہنچ جاتا ہے ایسے ہی مرنے کے بعد بھی پہنچ جاتا ہے۔

الاصل فی ھذ الباب ان الانسان لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوٰۃ اوصوماً اوصدقۃً اوغیرہ عندا اہل السنۃ والجماعۃ لماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ ضحیٰ بکبشین املحین احدھما عن نفسہ وا الا خرعن امتہ من اقر بوحدانیۃ اللہ وشھد لہ بالبلاغ ۱ھ ھدایۃ ص ۳۱۶، ج ۱ رحمانیہ"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :43