رؤیت ھلال سے متعلق فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ کے ایک استفتاء کا جواب

سوال کا متن:

شمالی امریکہ میں ایک اعلیٰ فقہی کونسل بنائی گئی ہے جو کہ علومِ فلکیات پر مبنی پر اسلامی ماہ اور تاریخ کا تعین کرتی ہے۔ اس کے حساب کے مطابق آئندہ رمضان اور عید الفطر کی تواریخ درجِ ذیل ہوگی۔ رمضان 1427 ھ پہلا روزہ 23 ستمبر 2006ء عید الفطر 1427 ھ اول شوال 23 اکتوبر 2006 رؤیت ہلال کے متعلق احادیث مبارکہ کے حوالہ جات سے ہم کس طرح حکمت اور موعظت سے ان کو مطلع کر سکتے ہیں؟

جواب کا متن:

فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ کی ارسال کردہ تحریر کا مطالعہ کیا جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسلامی عبادات روزہ اور عیدین کے اوقات کی تعیین کے لیے حساب فلکی کے ذریعے کیلنڈر تیار کر کے مسلمانوں کو اس میں درج مقررہ تاریخوں کا پابند بنایا جائے اور رؤیت ہلال کے سلسلے کو ختم کر دیا جائے اس مؤقف کی تائید میں کونسل کی طرف سے مختلف توجیہات مذکورہ تحریر میں بیان کی گئی ہیں اور ان سب کا منشاء یہ ہے کہ اس طریقہ کار سے مسلمانوں کے درمیان مذکورہ عبادات کی ادائیگی میں اتحاد اور یگانگت پیدا ہو اور رؤیت ہلال کے سلسلے میں عام طور سے جو انتشار پیدا ہوتا ہے اس سے بچا جا سکے۔

واضح رہے کہ شریعت نے مذکورہ عبادات کے وقت کی تعیین کے لیے رؤیت ہلال کو لازمی قرار دیا ہے اور رؤیت ہلال کے معاملے میں محض حسابات کے بجائے رؤیت کو مدار بنایا ہے۔

لاتصو موا حتی تروالھلال ولا تفطروا حتی تروہ فان غم علیکم فاقدر والہ۔

(متفق علیہ)

ترجمہ: روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند دیکھ نہ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کر جب تک چاند دیکھ نہ لو اور اگر چاند تم سے چھپ جائے (یعنی کسی وجہ سے تمہیں نظر نہ آئے) تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تیس دن پورے کر لو)۔

ایضا (صوموا لرؤیتہ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ ثلاثین من شعبان۔

اسی طرح سے دیگر احادیث مبارکہ میں بھی آنکھوں سے چاند کے دیکھنے کو مدار قرار دیا گیا ہے بلکہ حدیث شریف میں اس بات کی بھی تصریح ہے ’’اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو حساب لگا کر تیس دن پورے کرو‘‘۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں اگلی تاریخ شروع کرنے کا مدار آنکھو ں سے چاند کو دیکھنے پر ہے اور چاند کا افق پر محض موجود ہونا کافی نہیں کیونکہ موجود ہونے کے باوجود چاند مستور ہو سکتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی رؤیت کو صرفِ نظر کرتے ہوئے محض حساب فلکی کو مدار بنا کر رمضان المبارک یا عید الفطر کے ہونے کے منافی ہے اس مسئلہ کی تفصیل رسالہ رؤیت ہلال مؤلفہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ اور ’’عیون الرجال لرؤیۃ الھلال‘‘ احسن الفتاویٰ ص ۴۶۱، ج ۴ مؤلفہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب قدس سرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

اس تفصیل کی روشنی میں فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ کی طرف سے ارسال کردہ تحریر میں جو مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ حقیقی رؤیت کو صرفِ نظر کر کے صرف حسابِ فلکی کو ہی فیصلہ کا مدار بنایا جائے ہماری رائے میں درست نہیں ہمارے اکابر علماء کرام نے اس مؤقف کو قبول نہیں فرمایا، البتہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں حسابات فلکیہ سے مدد لینے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے مثلاً شہادت کو پرکھنے وغیرہ میں حسابات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اتحاد و یکجہتی کی خاطر شریعت کے مذکورہ حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے رؤیت ہلال کے لیے کوئی معقول انتظام کیا جائے تو وہ انشاء اللہ باعث برکت ہوگا۔"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :260