فون پر ایک طلاق دینا اور طلاق کا ارادہ کرنا

سوال کا متن:

آج سے ایک مہینہ اور چودہ دن پہلے میری اپنے خاوند سے لڑائی ہوئی کیونکہ مجھے ان کا ایک راز پتہ چلا تھا کہ ان کا ایک دوسری عورت سے تعلق ہے۔ جو سن کر مجھے غصہ آگیا وہ ان دنوں گھر سے باہر گئے ہوئے تھے تقریباً ایک مہینہ ہو چکا تھا میں نے ان کو فون پر کہہ دیا کہ آپ کی چوری پکڑی گئی ہے تو میرے لیے آپ مر گئے ہو میں ایک بیوہ کی زندگی زیادہ پسند کروں گی بجائے ایک طلاق یافتہ کہلانے کے انہوں نے ساری بات نہیں سنی اور فون بند کر دیا اس کے ایک دن بعد انہوں نے مجھے فون کیا اور میرے فون اٹھاتے ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ میرے لیے تم بھی مر گئی ہو میں نے تمہیں طلاق دی۔ میں نے ان کا طلاق دی پورا نہیں سنا اور ابھی وہ طلاق دی بولتے ہی جا رہے تھے تو میں نے فون بند کر دیا اس دن کے بعد میری ان سے کوئی بات نہیں ہوئی ان کے رشتہ داروں کی زبانی پتہ چلا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ طلاق ہو گئی ہے اب میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ انہوں نے خود ہی اپنے دوستوں کو بتایا ہے طلاق کا۔ میرے خاوند کو یہ بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کون سے طریقے سے طلاق دینے کا حکم دیا ہے ایک دفعہ پہلے بھی انہوں نے اسی طرح کاغذ پر لکھ کر دینے کا کہا تھا اور پھر خودی کہا تھا کہ تین دفعہ مختلف وقت میں لکھ کے دوں گا لیکن کاغذ ۔پر کچھ لکھا نہیں تھا بس بات صلح سے ختم ہو گئی تھی۔

جواب کا متن:

سوال میں ذکر کردہ تفصیل میں غور کیا گیا ہے، اس میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق پہلی دفعہ آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق لکھ کر دینے کا کہا تھا لیکن اس ارادے کی تکمیل کا وقت نہ آیا لہٰذا اس سے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی (بشرطیکہ اسی قدر بات ہوئی ہو اور مزید کوئی معاملہ پیش نہ آیا ہو)

بعد ازاں آپ کی تحریر کے مطابق شوہر نے فون پر آپ کو طلاق دی ہے اور آپ کی تحریر سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ نے صرف ایک ہی بار طلاق کا لفظ سنا ہے لیکن یہ بات غیر واضح ہے کہ شوہر نے کتنی بار طلاق کا لفظ بولا یا لکھا ہے؟ آپ کی جانب سے ذکر کردہ وضاحت کے مطابق اگر صرف ایک ہی دفعہ صاف لفظوں میں شوہر نے طلاق دی ہو تو اس سے فقط ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے جس کی بنا پر عدت کے دوران بغیر نکاح جدید کے اور عدت گذارنے کے بعد نکاح جدید کے ساتھ آپ باہم مل سکتے ہیں۔

لیکن اگر اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت پیش آئی ہے اور شوہر نے ایک سے زائد طلاقیں دی ہیں یا کنائی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں تو جواب مختلف ہوگا چنانچہ شوہر سے مکمل وضاحت لے کر مسئلہ کا جواب دوبارہ معلوم کر لیا جائے۔"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :316