’’مرتد‘‘ واجب القتل ہے

سوال کا متن:

قرآن و حدیث کے حوالہ سے ثابت فرمائیں کہ مرتد کی سزا، سزائے موت ہے، میرے دوست یہ منطق بتاتے ہیں کہ مرتد صرف اس وقت واجب القتل ہے یا سزائے موت کا مستوجب ہے جب حکومت اسلامی ہو۔ انہو ں نے آیت نمبر ۸۶ تا ۸۸ آل عمران کا حوالہ دیا ہے۔

جواب کا متن:

مرتد کی سزا کے متعلق پوری اُمت کا اجماع ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا چنانچہ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی صراحت ہے۔

عن عکرمۃ ؒ قال اتی علیؓ بزنادقۃ فاحر قھم فبلغ ذلک ابن عباسؓ فقال لوکنت انالم احرقتہم لنھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاتعذبوا بعذاب اللّٰہ وتقتلتھم لقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من بدل دینہ فاقتلوہ۔

(بخاری ص ۴۲۳‘ ج ۱‘ ص ۱۰۲۳‘ ج ۲)

اس حدیث مبارک میں آیا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں انہیں قتل ضرور کرتا اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو مسلمان اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کرو۔

ایسے ہی اس قسم کا مضمون سنن نسائی ص ۱۶۹ ج ۲‘ ابودائود ص ۳۵۰‘ ج ۲‘ ترمذی ص ۲۳۰‘ ج ۱ وغیرہ میں یہ مضمون موجود ہے۔

اسی طرح دورِ صدیقیؓ میں بھی مرتدین کے خلاف جہاد کیا گیا اور ان کو قتل کیا گیا جس کا تذکرہ بخاری شریف ص ۱۰۳۳‘ ج ۲ میں موجود ہے۔

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے زمانہ میں ایسے مرتدین کو قتل کرایا جیسا کہ ہے کہ قبیلہ عکل کے لوگوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ لوٹ لے گئے اور اسلام کے بعد کفر اختیار کیا منادی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب میں کچھ لوگ بھیجے ابھی دن چڑھا نہ تھا کہ وہ مرتد لائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پائوں کٹوا دئیے پھر ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروائی اور انہیں گرم پتھریلی زمین پر ڈلوا دیا انہوں نے پانی طلب کیا مگر انہیں پانی نہ دیا گیا حتی کہ اس طرح جرم ارتداد میں ذلت کی موت مر گئے۔ ( بخاری ص ۴۲۳‘ ج ۱‘ مسلم ص ۵۷‘ ج ۲‘ نسائی ص ۱۶۶‘ ج ۲)

خلفائِ راشدین سمیت پوری جماعت صحابہؓ کا اجماع نقل کرنے کے بعد مزید ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی نقل کر دیتے ہیں کہ

واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللّٰہ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبھۃ کشفت عنہ ........ ویحبس ثلاثۃ ایام فان اسلم والاقتل وفی الجامع الصغیر المرتد یعرض علیہ الاسلام فان ابی قتل۔ (ہدایۃ ص ۵۸۰‘ ج ۱)

مطلب یہ ہے کہ مرتد اگر اسلام کے قبول کرنے سے انکار کر دے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔

وقال العلامۃ ابن عابدین اعلم ان المرتد یقتل بالا جماع کمامر

(رسائل ابن عابدین ص ۳۱۸‘ ج ۱)"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :336