’’خلع‘‘ کی صورت میں جدائی، عدت اور رجوع وغیرہ کا حکم

سوال کا متن:

(۱) عورت کے لیے خلع کے بعد عدت کی کیا مدت ہے؟ (۲) کیا خلع سے رجوع ہو سکتا ہے؟ (۳) اگر خاوند ایک طلاق (طلاق رجعی) کے تین ماہ بعد تک بیوی کے پاس نہیں جاتا تو کیا عورت نیا نکاح کر سکتی ہے۔ یا اس کو دوسرے نکاح سے قبل پہلے تین طلاق حاصل کرنی ہوں گی۔ (۴) اگر مذکورہ تین عوامل کے بعد میاں بیوی رجو ع کر لیتے ہیں اور تازہ نکاح کرتے ہیں تو کیا اب پھر خاوند کا حق تین طلاق تک ہوگا یا یہ کہ ایک حق تو وہ پہلے استعمال کر چکا ہے؟

جواب کا متن:

(۱، ۲) خلع کی وجہ سے طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے اس کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا البتہ باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے اور عدت اگر حیض آتا ہو تو تین ماہواریاں ہیں اور اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہے اور اگر حیض آنا بند ہو گیا ہو تو تین ماہ ہے۔ اختلف فی ماھیۃ الخلع قال اصحابنا ھو طلاق۔ (بدائع ۳/۱۴۴)

(۳) عدت گذرنے کے بعد عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔

(۴) مذکورہ بالا خاوند کو دوبارہ رجوع یا نکاح کی صورت میں دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

اذا خالع امرأتہ تزوجھا تعود الیہ بطلاقین عندنا ..... حتی لوطلقھا بعد ذالک تطلیقتین حرمت علیہ حرمۃ غلیظۃ عندنا۔ بدائع الصنائع ۳/۱۴۴۔

اما الطلاق الرجعی فالحکم الاصلی لہ ھو نقصان العدد۔

(بدائع الصنائع ۳/۱۸۰)"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :303