(۱) اسلام میں لباس کی حدود و قیود (۲) سر ڈھانپنے کا حکم

سوال کا متن:

(۱) اسلام میں لباس کے متعلق کیا احکامات ہیں؟ اور کس لباس کو اسلامی لباس کہا جا سکتا ہے؟(۲) اسی طرح یہ بتائیے کہ شریعت مطہرہ میں سر کو ڈھانپنے کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیا ہر وقت سر کو ڈھانپنا ضروری ہے اور آج کل جو سندھی ٹوپی استعمال کی جاتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

(۱) شریعت مطہرہ نے لباس و پوشاک کے معاملے میں بڑی وسعت اور آسانی رکھی ہے اور زیادہ قیودات اور پابندیوں کے بجائے انسانیت کے فائدے کے لیے کچھ حدود متعین کی ہیں جو کہ درجِ ذیل ہیں:

(۱) لباس ساتر ہو۔ یعنی مردوں کے لیے ناف سے گھٹنوں تک اور عورتوں کے لیے چہرہ اور ہاتھ کے علاوہ پورا جسم ستر ہے اور غیر محرم کے سامنے عورت کے لیے چہرے کا پردہ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ لباس ایسا ہو جو ان حصوں کو چھپائے یعنی لباس نہ اتنا باریک ہو کہ جسم جھلکے یا نظر آئے اور نہ اتنا چست ہو کہ جسم کی بناوٹ نمایاں ہوتی ہو بلکہ وہ لباس اعضاء مستورہ کو مکمل چھپانے والا ہو۔

(۲) مردوں کے لیے ریشمی لباس کا استعمال ناجائز ہے۔

(۳) مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے کسی جاندار کی تصویر والا کپڑا استعمال کرنا جائز نہیں۔

(۴) لباس میں فخر و غرور کا انداز نہ ہو۔

(۵) عورت کا لباس مرد کے لیے اور مرد کا لباس عورت کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔

(۶) مردوں کا لباس ایسا لمبا نہ ہو کہ جس سے ٹخنے چھپ جائیں۔

(۷) لباس میں بیجا اسراف نہ کیا جائے۔

(۸) لباس میں کسی دوسری کافر قوم کی نقالی نہ کی جائے اور نہ ہی فاسقوں، فاجروں کی عام وضع قطع کی مشابہت ہو۔

(۹) کفار اقوام کی ایسی مشابہت کہ جس سے ذہن انہی کی طرف جائے، ممنوع ہے۔ لیکن اگر اس میں اتنا عموم پید اہو جائے کہ اس لباس اور وضع قطع کو دیکھ کر ان کی طرف ذہن نہ جاتا ہو تو پھر وہ ممنوع نہیں اور اس کا استعمال کرنے میں گنجائش ہے۔

اس وضاحت سے پینٹ اور شرٹ کا حکم بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اب اس لباس میں اتنی عمومیت پیدا ہو گئی ہے کہ اس کے پہننے والے کو غیر مسلم اقوام میں شمار نہیں کیا جاتا لیکن پھر بھی چونکہ یہ وضع قطع علمائ، صلحاء اور اہل دین کی وضع قطع کے خلاف ہے اور اس میں ستر پوشی کا اہتمام بھی کم ہوتا ہے اس لیے اس لباس سے احتراز کیا جائے اور اس کے بجائے شلوار، قمیض کے لباس کو زیب تن کیا جائے جو ہر لحاظ سے پینٹ شرٹ سے بہتر اور مفید ہے اس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہے، باعث زینت بھی ہے اور ستر پوشی کے لحاظ سے انفع بھی ہے۔

(۲) سر کو ہر وقت ڈھانپنا ضروری اور لازمی نہیں البتہ سر پر ٹوپی پہننا یا پگڑی باندھنا سنت سے ثابت ہے اس لیے کسی مسلمان کو عام حالت میں اس سنت کو چھوڑنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے لیکن اس مقصد کے لیے کسی مخصوص قسم کی ٹوپی یا پگڑی متعین نہیں ہے۔ جہاں تک سندھی ٹوپی کا تعلق ہے تو چونکہ یہ ٹوپی علمائ، صلحاء کے شعار کے خلاف ہے اس لیے اس سے بچنا ہی بہتر ہے اور اس کے علاوہ علماء و صلحاء کی طرز پر سر کو ڈھانپنا چاہیے۔

(۱) ’’یبٰنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواٰتکم وریشاً‘‘ (الاعراف ۳۶)

(۲) (قولہ ولا یضر التصاقہ) ای بالالیۃ مثلا وقولہ وتشکلہ من عطف المسبب علی السبب وعبارۃ شرح المنیۃ اما لوکان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ الا انہ الصلوۃ لحصول الستر اھ\x0640 قال ط وانظر ھل یحرم النظر الی ذلک المتشکل مطلقا اوحیث وجدت الشھوۃ ۱ھ\x0640 قلت سنتکلم علی ذلک فی کتاب الحظر والذین یظھر من کلامھم ھناک ھو الاول‘‘۔ (ردالمختار ۱/۲۷۵)

(قولہ وھی غیر بادیۃ) اقول مفادہ ان رؤیۃ الثوب بحیث یصف حجم العضو ممنوعۃ ولوکثیفا لاتری البشرۃ منہ قال فی المغرب یقال مسست الحبلی فوجدت حجم الصبی فی بطنھا واحجم الثدی علی نحرا لجاریۃ اذا نھز وحقیقتہ صارلہ حجم ای نتوّ وارتفاع ومنہ قولہ حتی یتبین حجم عظامھا ۱ھ\x0640 وعلی ھذا لا یحل النظر الی عورۃ غیرہ فوق ثوب ملتزق بھا یصف مجمھا فیحمل مامر علی مااذا لم یصف حجمھا فلیتأ مل۔ (ردالمختار ۵/۲۳۴)"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :383