غیر مسلم یا ناجائز کام کرنیوالے کو پراپرٹی کرائے پر دینا کب ناجائز ہے؟

سوال کا متن:

یہاں مغرب میں اکثر علماء کے اپنے کئی کئی مکان ہیں جو انہوں نے کرایہ پر دئیے ہیں حالانکہ یہاں پر اکثر غیر مسلم ہی کرائے پر لیتے ہیں، جو ۹۹ فیصد غیر شادی شدہ ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ معلوم ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں اور وہ حرام کاری کریں گے؟ تو ان کو مکان کرائے پر دئیے جاتے ہیں اور کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا اور نہ اس کرائے کی رقم کو حرام قرار دیا ہے۔مندرجہ ذیل باتوں پر قیاس کرتے ہوئے زید علی وجہ الیقین یہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی کمرشل پراپرٹی کسی کمپنی کو کرائے پر دیتا ہے جس میں کہ کرایہ دار باقی چیزوں کے علاوہ شراب بھی فروخت کریں گے، چونکہ اس میں اس کی براہ راست بیع و شراء نہیں اور نہ ہی وہ ان کے اعمال کے ذمہ دار ہے اس لیے اس کا کرایہ لینا مندرجہ بالا مسائل کی روشنی میں جائز ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ تعاون علی الاثم میں بھی نہیں، کیونکہ اثم کا تعلق زیادہ سے زیادہ مسلمان سے ہے، کافر اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں، اور اگر پہلے سے وہاں پر کوئی کرایہ دار ایسا کام کر رہا ہو تو آپ اس جگہ کو خرید سکتے ہیں اور کرایہ دار سے مسلسل لگا لگایا کرایہ آپ وصول کر سکتے ہیں؟ اب آپ سے گذارش ہے کہ بادلائل مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اور مندرجہ بالا مسائل کہ جن پر زید قیاس کرتا ہے ٹھیک ہیں تو ان کی صحیح توجیہ ارشاد فرمائیں۔

جواب کا متن:

پراپرٹی کرایہ پر لینے والے کا مقصد اگر یہ ہو کہ وہ اس جگہ پر صرف ناجائز اور غلط قسم کی اشیاء کا کاروبار کرے گا اور پراپرٹی کے مالک کو پہلے سے اس بات کا اندازہ بھی ہو تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس شخص کو جگہ کرایہ پر دے، اس لیے کہ یہ تعاون علی المعصیت ہے لیکن اگر کرایہ دار نے مطلق کاروبار کیلئے پراپرٹی کرایہ پر لی اور بعد ازاں اس میں بعض ناجائز چیزوں کی خرید و فروخت بھی شروع کر دی تو اس صورت میں پراپرٹی کا مالک گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ یہ برا عمل کرایہ دار کی طرف منسوب ہوگا اور اس صورت میں پراپرٹی کے مالک کے لیے کرایہ وصول کرنے کی گنجائش ہے۔

لابأس بان یواجر المسلم داراً امن الذمی لیسکنہا فان شرب فیہا الخمر اوعبد فیہا الصلیب اوادخل فیہا الخنازیرلم یلحق للمسلم اثم فی شی من ذلک لأنہ لم یؤاجرھا لذلک والمعصیۃ فی فعل المستأجر دون قصد رب الدار فلا اثم علی رب الدار فی ذلک۔

(المبسوط: ج ۱۶، ص ۳۰۹ بحوالہ جدید فقہی مسائل ج ۱، ص ۲۴۷)"
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :356