حرمت رضاعت کے ثبوت کے لئے دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:مسمی محمد اشرف صاحب کا مسماۃ شائستہ صاحبہ سے عرصہ تقریباً ۱۲ سال پہلے نکاح ہوا اور الحمدللہ ان کے چاربچے ہیں۔ اس طویل عرصے کے بعد اچانک یہ بات سامنے آئی کہ محمد اشرف اور محترمہ شائستہ صاحبہ کے مابین رضاعت کا رشتہ ہے جس کے مطابق محمد اشرف کا نکاح گویا اپنی رضاعی خالہ سے ہوگیاہے حضرت مفتی صاحب! ہم اس اجمال کی تفصیل آپ کے سامنے بیان کردیتے ہیں اس کابغور جائزہ لے کر آپ شریعت کے مطابق ہمیں آگاہ فرمائیں کہ کیا واقعی ان کے مابین رضاعت کا رشتہ قائم ہو گیا ہے یا نہیں؟خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسماۃ شریفہ صاحبہ نے اپنی حقیقی بھتیجی مسماۃ عابدہ کو جبکہ عابدہ کی عمر صرف 15یوم تھی اپنی بڑی بیٹی طاہرہ کے ساتھ دودھ پلایا بعد ازاں مسماۃ عابدہ نے اپنے حقیقی بھائی محمد اشرف کو دودھ پلایا پھر اسی محمد اشرف صاحب کا نکاح مسماۃ شریفہ صاحبہ کی آٹھویں نمبر کی بیٹی مسماۃ شائستہ صاحبہ سے ہوا جسے تقریباً بارہ سال ہوگئے۔ اور ان کے چاربچے ہیں البتہ مرضعہ نمبر ایک (دودھ پلانے والی) مسماۃ شریفہ صاحبہ اور مرضعہ نمبر دو(دودھ پلانے والی) مسماۃ عابدہ صاحبہ دونوں کے پاس گواہ کوئی نہیں… نیز دلچسپ بات یہ ہے کہ بقول مرضعہ شریفہ کے محمد اشرف کے رشتے کے وقت مجھے اس بات کا ہرگز علم نہیں تھا کہ مرضعہ عابدہ نے اپنے اس حقیقی بھائی محمد اشرف کو دودھ پلایا… نیز محمد اشرف کی والدہ حاجیانی سکینہ کے بقول انہیں بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی بیٹی عابدہ نے اپنے بھائی محمد اشرف کو دودھ پلایا تھا… نیز خود عابدہ کے بقول انہیں بھی اس کا علم نہیں تھا۔ اور دوسرے خاندان والوں کو اور میرے سسر کو اس بارے میں بالکل علم نہیں ہے اور نہ ہی وہ گواہی دینے کو تیار ہیں۔ازراہ کرم اس پیچیدہ مسئلے میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں۔ آپ کی عین نوازش ہوگی۔

جواب کا متن:

حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لئے شرعی گواہی یعنی دو عادل مرد یا ایک عادل مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ محض مرضعہ (دودھ پلانے والی) کے اقرار سے یا شک کی وجہ سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر واقعی شرعی گواہی موجود نہیں ہے تو اشرف اور شائستہ کا نکاح حسب سابق برقرار ہے۔

لما فی ’’تنقیح الحامدیۃ‘‘:

حجۃ الرضاع حجۃ المال وھو شھادۃ عدلین او عدل وعدلتین ولا یثبت بشھادۃ النساء وحدھن (کتاب الرضاع : ۱؍۳۴ : رشیدیہ)

وفی ’’البحر الرائق‘‘:

والحاصل ان الروایۃ قد اختلف فی اخبار الواحدۃ ۔ وکذا الاخبار برضاع لھا طار فلیکن ھو المعتمد فی المذھب وھی ان الملک للزوج فیھا ثابت والملک الثابت لا یبطل بخبر الواحدۃ (۲؍۳۲ : کتاب الرضاع)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :554